سورة لقمان - آیت 33

يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمْ وَاخْشَوْا يَوْمًا لَّا يَجْزِي وَالِدٌ عَن وَلَدِهِ وَلَا مَوْلُودٌ هُوَ جَازٍ عَن وَالِدِهِ شَيْئًا ۚ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ ۖ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَلَا يَغُرَّنَّكُم بِاللَّهِ الْغَرُورُ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

لوگو ! بچو اپنے رب کے غضب سے اور ڈرو اس دن سے جب کوئی باپ اپنے بیٹے کے کام نہیں آئے گا اور نہ بیٹا اپنے باپ کے کام آئے گا۔ یقیناً اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ دنیا کی زندگی تمہیں دھوکے میں نہ ڈال دے۔ اور نہ دھوکہ باز تم کو اللہ کے معاملے میں دھوکا دے

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے تقویٰ کا حکم دیتا ہے۔ تقویٰ سے مراد اس کے حکم کی تعمیل کرنا اور منہیات کو ترک کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے سخت دن کے خوف کی طرف ان کی توجہ مبذول کرواتا ہے۔ جس روز ہر شخص کو اپنے سوا کسی کا ہوش نہیں ہوگا پس ﴿ لَّا يَجْزِي وَالِدٌ عَن وَلَدِهِ وَلَا مَوْلُودٌ هُوَ جَازٍ عَن وَالِدِهِ شَيْئًا ﴾ ” نہ تو باپ اپنے بیٹے کے کچھ کام آئے گا نہ بیٹا اپنے باپ کے کچھ کام آسکے گا۔“ یعنی وہ اس کی نیکیوں میں اضافہ کرسکے گا نہ اس کے گناہوں میں کوئی کمی کرسکے گا۔ ہر بندے کا عمل پورا ہوچکا ہوگا اور اس پر اس کی جزا و سزا بھی متحقق ہوچکی ہوگی۔ تو اس ہولناک دن کی طرف دیکھ، جو بندے کو قوت عطا کرکے اس کے لیے تقویٰ کو آسان کرتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں پر رحمت ہے کہ وہ انہیں تقویٰ کا حکم دیتا ہے جس کے اندر ان کی سعادت ہے اور اس پر ان کے ساتھ ثواب کا وعدہ کرتا ہے، انہیں عذاب سے ڈراتا ہے، انہیں مواعظ اور (قیامت کے) خوفناک مقامات سے ڈرا کر، برائیوں سے روکتا ہے۔۔۔ اے جہانوں کے رب ! تیری ہی ستائش ہے۔ ﴿ إِنَّ وَعْدَ اللّٰـهِ حَقٌّ ﴾ ” بے شک اللہ کا وعدہ سچا ہے۔“ پس اللہ کے وعدے میں شک نہ کرو اور ایسے کام نہ کرو جو اس وعدے کو سچا نہ ماننے والوں کے ہوتے ہیں، بنا بریں فرمایا : ﴿ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا ﴾ یعنی دنیا کی زیب و زینت، اس کی چکا چوند اور اس کے فتنے تمہیں دھوکے میں نہ ڈال دیں ﴿وَلَا يَغُرَّنَّكُم بِاللَّـهِ الْغَرُورُ﴾ ” اور فریب دینے والا تمہیں اللہ کے بارے میں کسی طرح کا فریب نہ دے“ یعنی شیطان ہر وقت انسان کو فریب میں مبتلا رکھتا ہے اور کسی وقت بھی اس سے غافل نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر حق ہے اور اس نے ان کے ساتھ وعدہ کر رکھا ہے کہ وہ انہیں ان کے اعمال کی جزا دے گا، نیز کیا انہوں نے اس کا حق پورا کیا ہے یا اس بارے میں انہوں نے کوتاہی کی ہے؟ یہ ایسا معاملہ ہے جس کا اہتمام واجب ہے۔ بندۂ مومن کو چاہیے کہ وہ اسے اپنا نصب العین اور زندگی کا سرمایہ بنائے رکھے جس کے لیے کوشش کی جاتی ہے۔ اس راستے کی سب سے بڑی آفت فتنے میں مبتلا کرنے والی دنیا ہے اور سب سے بڑا راہزن شیطان ہے جو وسوسے ڈالتا اور گمراہ کرتا ہے، اس لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے بندوں کو دنیا اور شیطان کے فریب میں مبتلا ہونے سے روکا ہے۔ ﴿ يَعِدُهُمْ وَيُمَنِّيهِمْ وَمَا يَعِدُهُمُ الشَّيْطَانُ إِلَّا غُرُورًا ﴾ (النساء : 4؍120) ” شیطان ان سے وعدہ کرتا ہے، ان کو آرزوئیں دلاتا ہے اور شیطان کا وعدہ دھوکے کے سوا کچھ نہیں۔ “