سورة لقمان - آیت 32

وَإِذَا غَشِيَهُم مَّوْجٌ كَالظُّلَلِ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ فَلَمَّا نَجَّاهُمْ إِلَى الْبَرِّ فَمِنْهُم مُّقْتَصِدٌ ۚ وَمَا يَجْحَدُ بِآيَاتِنَا إِلَّا كُلُّ خَتَّارٍ كَفُورٍ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اور جب ان لوگوں پر ایک موج سائبانوں کی طرح چھا جاتی ہے تو یہ اللہ کو پکارتے ہیں اپنی اطاعت کو بالکل اسی کے لیے خالص کرلیتے ہیں، جب اللہ انہیں بچا کر خشکی تک پہنچا دیتا ہے تو ان میں سے کچھ عہد پر قائم رہتا ہے اور ہماری نشانیوں کا انکار نہیں کرتا مگر ہر وہ شخص جو وعدہ خلافی کرنے والا اور ناشکرا ہے

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تعالیٰ لوگوں کا حال بیان کرتا ہے کہ جب لوگ سمندر میں سفر کرتے ہیں اور سمندر کی موجیں چھتری کی مانند ان پر چھا جاتی ہیں تب وہ اللہ کے لیے عبادت کو خالص کرتے ہوئے صرف اسی کو پکارتے ہیں۔ ﴿ فَلَمَّا نَجَّاهُمْ إِلَى الْبَرِّ ﴾ ” پھر جب وہ ان کو نجات دے کر خشکی پر لے آتا ہے۔“ تو وہ دو گروہوں میں منقسم ہوجاتے ہیں: ان میں سے ایک گروہ کے لوگ درمیانی راہ پر چلنے والے ہیں، یعنی کامل طریقے سے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا نہیں کرتے بلکہ وہ گناہوں کا ارتکاب کرکے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں اور ایک گروہ اللہ تعالیٰ کی ناشکری کرکے اس کی نعمت کا انکار کرتا ہے۔ بنا بریں فرمایا : ﴿ وَمَا يَجْحَدُ بِآيَاتِنَا إِلَّا كُلُّ خَتَّارٍ﴾ ” اور ہماری آیتوں کا وہی انکار کرتے ہیں جو عہد شکن ہیں۔“ ان کی بدعہدی یہ ہے کہ انہوں نے اپنے رب سے عہد کیا تھا کہ اگر اس نے سمندر اور اس کی سختیوں سے انہیں نجات دی تو وہ اس کے شکرگزار بندے بنیں گے۔ اس فریق نے بدعہدی کی اپنے عہد کو پورا نہ کیا اور اس پر مستزاد یہ کہ ﴿كَفُورٍ﴾ وہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے سخت ناشکرے ہیں۔ جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے ان سختیوں سے نجات دی ہو کیا اس کے لیے اس کا شکر ادا کرنے کے سوا کچھ اور لائق ہے؟