سورة البقرة - آیت 25

وَبَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ۖ كُلَّمَا رُزِقُوا مِنْهَا مِن ثَمَرَةٍ رِّزْقًا ۙ قَالُوا هَٰذَا الَّذِي رُزِقْنَا مِن قَبْلُ ۖ وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا ۖ وَلَهُمْ فِيهَا أَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ ۖ وَهُمْ فِيهَا خَالِدُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اور ایمان لانے اور صالح اعمال کرنے والوں کو خوش خبری دیجیے کہ ان کے لیے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں چلتی ہیں۔ جب وہ پھلوں سے رزق دیے جائیں گے تو وہ کہیں گے یہ وہی ہیں جو ہم اس سے پہلے دیے گئے تھے اور انہیں اس سے ملتے جلتے پھل دیے جائیں گے اور ان کے لیے پاک بیویاں ہوں گی اور وہ ان باغات میں ہمیشہ رہیں گے

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

جب اللہ تعالیٰ نے کفار کی جزا کا ذکر کیا تو اعمال صالحہ سے آراستہ اہل ایمان کی جزا بھی بیان فرما دی، جیسا کہ قرآن مجید میں اس کا طریقہ ہے کہ وہ ترغیب و ترہیب کو اکٹھا بیان کرتا ہے، تاکہ بندہ مومن اللہ کی رحمت کی رغبت بھی رکھے اور اس کے عذاب سے ڈرتا بھی رہے۔ اس کے دل میں عذاب کا خوف ہو تو رحمت و مغفرت کی امید سے بھی سرشار ہو۔ ﴿وَبَشِّرِ﴾ یعنی اے رسول ! آپ اور آپ کا قائم مقام خوشخبری دے دے۔ ﴿الَّذِينَ آمَنُوا﴾” یعنی جو اپنے دل سے ایمان لائے“﴿وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ﴾ اور انہوں نے اپنے جوارح سے نیک کام سر انجام دیئے۔ پس انہوں نے اعمال صالحہ کے ذریعے سے اپنے ایمان کی تصدیق کی۔ اللہ تعالیٰ نے اعمال خیر کو (الصالحات) سے تعبیر کیا ہے کیونکہ ان کے ذریعے سے بندے کے احوال، اس کے دینی اور دنیاوی امور اور اس کی دنیاوی اور آخروی زندگی کی اصلاح ہوتی ہے اور اس کے ذریعے ہی سے احوال کا فساد زائل ہوتا ہے پس اس کی وجہ سے اس کا شمار صالحین میں ہوجاتا ہے جو جنت میں اللہ تعالیٰ کی مجاورت اور اس کے قرب کی صلاحیت سے بہرہ ور ہیں۔ پس ان کو خوشخبری سنا دیجئے ﴿أَنَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ ﴾ ” کہ ان کے لئے جنت کے باغات ہیں“ جن میں عجیب اقسام کے درخت، نفیس انواع کے پھل، گہرے سائے اور درختوں کی نہایت خوبصورت شاخیں ہوں گی۔ اسی وجہ سے اس کا نام جنت ہے۔ اس میں داخل ہونے والے اس کے باغوں اور گہری چھاؤں سے فیض یاب ہوں گے اور اس میں رہنے والے اس میں عیش و عشرت کی زندگی گزاریں گے۔﴿تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ﴾ ” یعنی جنت میں پانی، دودھ، شہد اور شراب کی نہریں بہتی ہوں گی۔ وہ جیسے چاہیں گے انہیں جاری کرلیں گے اور جہاں چاہیں گے انہیں پھیر لیں گے۔ انہی نہروں سے جنت کے درخت سیراب ہوں گے اور مختلف اصناف کے پھل پیدا ہوں گے۔ ﴿ كُلَّمَا رُزِقُوا مِنْهَا مِن ثَمَرَةٍ رِّزْقًا ۙ قَالُوا هَـٰذَا الَّذِي رُزِقْنَا مِن قَبْلُ﴾ ” جب بھی ان کو ان میں سے کھانے کو کوئی پھل دیا جائے گا، تو کہیں گے یہ تو وہی ہے جو پہلے ہمیں دیا گیا“ یعنی جنت کا یہ پھل دنیا کے پھلوں کی جنس میں سے ہوگا اس میں دنیا کے پھلوں کی سی صفات ہوں گی۔ خوبصورتی اور لذت میں جنت کے پھل دنیا کے پھلوں سے ملتے جلتے ہوں گے۔ ان میں کوئی بد ذائقہ پھل نہ ہوگا اور کوئی وقت ایسا نہ ہوگا جس میں اہل جنت لذت نہ اٹھا رہے ہوں گے بلکہ وہ دائمی طور پر جنت کے پھلوں کی لذت سے لطف اندوز ہوں گے۔ ﴿وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا﴾” اور دیئے جائیں گے ان کو پھل ملتے جلتے“ کہا جاتاہے کہ (جنت کے پھل) نام میں مشابہت رکھتے ہیں اور ذائقے میں مختلف ہیں۔ بعض کی رائے ہے کہ اس سے مراد ہے کہ وہ رنگ میں مشابہت رکھتے ہیں مگر نام مختلف ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد ہے کہ وہ خوبصورتی، لذت اور مٹھاس میں ایک دوسرے سے مشابہ ہیں۔ شاید یہی تعبیر احسن ہے۔ پھر جہاں اہل جنت کے مساکن، ان کی خوراک، طعام و مشروبات اور پھلوں کا ذکر کیا ہے وہاں ان کی بیویوں کا ذکر بھی کیا ہے۔ نہایت ایجاز و اختصار کے ساتھ مکمل اور واضح طور پر ان کا وصف بیان کیا ہے۔ ﴿وَلَهُمْ فِيهَا أَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ﴾ ” ان کے واسطے ان میں بیویاں ہوں گی پاک“ اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ وہ فلاں عیب سے پاک ہوں گی، کیونکہ یہ تطہیر، طہارت کی تمام اقسام پر مشتمل ہوگی۔ ان کے اخلاق پاک ہوں گے، ان کی تخلیق پاکیزگی پر مبین ہوگی، ان کی زبان پاک ہوگی اور ان کی نظر پاک ہوگی۔ ان کے اخلاق کی پاکیزگی یہ ہے کہ وہ دلکش ہوں گی اور اپنے اخلاق حسنہ، حسن اطاعت اور قولی و فعلی آداب کے ساتھ اپنے شوہروں سے اظہار محبت کریں گی۔ حیض و نفاس، منی، بول و براز، تھوک، بلغم اور بدبو سے پاک ہوں گی۔ نیز اپنی جسمانی تخلیق میں بھی پاک ہوں گی وہ کامل حسن و جمال سے بہرہ ور ہوں گی۔ ان کے اندر کسی قسم کا عیب اور کسی قسم کی جسمانی بدصورتی نہ ہوگی بلکہ وہ نیک سیرت اور خوبصورت ہوں گی۔ وہ پاک نظر اور پاک زبان ہوں گی۔ وہ نیچی نگاہوں والی ہوں گی اور ان کی نگاہیں اپنے شوہروں سے آگے نہ بڑھیں گی۔ ان کی زبانیں ہر گندی بات سے محفوظ پاک ہوں گی۔ اس آیت کریمہ میں مندرجہ ذیل امور کا ذکر کیا گیا ہے : (1) خوشخبری دینے والا۔ (2) جس کو خوشخبری دی گئی ہے۔ (3) جس چیز کی خوشخبری دی گئی ہے۔ (٤) وہ سبب جو اس خوشخبری کا باعث بنتا ہے۔ خوشخبری دینے والے سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات یا وہ لوگ ہیں جو آپ کی امت میں سے (ابلاغ علم میں) آپ کے قائم مقام ہوں گے۔ خوشخبری دیئے جانے والے وہ لوگ ہیں جو اہل ایمان ہیں اور نیک اعمال بجا لانے والے ہیں۔ جس چیز کی خوشخبری دی گئی ہے وہ ہے جنت، جو بیان کردہ صفات سے متصف ہے۔ اس خوشخبری کے باعث اور سبب سے مراد ایمان اور عمل صالح ہیں۔ ایمان اور عمل صالح کے بغیر اس خوشخبری کے حصول کا کوئی ذریعہ نہیں۔ یہ سب سے بڑی خوشخبری ہے جو بہترین اسباب کے ذریعے سے افضل ترین ہستی کی زبان مبارک سے دی گئی ہے۔ اس آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ اہل ایمان کو خوشخبری دینا اعمال صالحہ اور ان کے ثمرات کا ذکر کر کے ان میں نشاط پیدا کرنا مستحب ہے کیونکہ اس طرح اعمال صالحہ آسان ہوجاتے ہیں۔ سب سے بڑی بشارت جو انسان کو حاصل ہوتی ہے وہ ایمان اور عمل صالح کی توفیق ہے۔ پس یہ اولین بشارت اور اس کی بنیاد ہے۔ اس کے بعد دوسری بشارت وہ ہے جو موت کے وقت اسے حاصل ہوتی ہے اور اس کے بعد وہ بشارت ہے جو نعمتوں سے بھرپوردائمی جنت میں پہنچ کر اسے حاصل ہوگی۔ ہم اللہ تعالیٰ سے اس کے فضل کا سوال کرتے ہیں۔