نَتْلُو عَلَيْكَ مِن نَّبَإِ مُوسَىٰ وَفِرْعَوْنَ بِالْحَقِّ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
ہم آپ کے سامنے موسیٰ اور فرعون کے کچھ حالات ٹھیک ٹھیک بیان کرتے ہیں ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائیں۔ (٣)
اس کے جملہ مضامین میں سے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کا قصہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے کھول کھول کر بیان کیا ہے اور متعدد مقامات پر اس کا اعادہ کیا ہے اور اس مقام پر بھی اس قصے کو تفصیل سے بیان کیا ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿نَتْلُو عَلَيْكَ مِن نَّبَإِ مُوسَىٰ وَفِرْعَوْنَ بِالْحَقِّ ﴾ ” ہم تمہیں موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کے کچھ حالات صحیح صحیح سناتے ہیں۔“ کیونکہ ان کے واقعات بہت ہی انوکھے اور ان کا قصہ نہایت تعجب انگیز ہے۔ ﴿لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ﴾ ” مومن لوگوں کے لئے“ پس انہی کو خطاب کیا گیا ہے اور کلام کا رخ بھی انہی کی طرف ہے۔ کیونکہ انہی کے پاس، ایمان ہے جس کی بنا پر وہ اس میں تدبر کرتے ہیں، اسے قبول کرتے ہیں اور عبرت کے مواقع پر اس سے راہنمائی حاصل کرتے ہیں اور ان کے ذریعے سے ایمان و یقین میں اضافہ ہوتا ہے اور ان کی نیکیاں نشوونما پاتی ہیں۔ رہے ان کے علاوہ دیگر لوگ تو وہ ان سے استفادہ نہیں کرسکتے۔ سوائے اس کے کہ ان پر حجت قائم ہو۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو دور رکھا ہے، اپنے اور ان کے درمیان پردہ حائل کردیا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ اس کو سمجھنے سے عاری ہیں۔