وَلَا يَأْتُونَكَ بِمَثَلٍ إِلَّا جِئْنَاكَ بِالْحَقِّ وَأَحْسَنَ تَفْسِيرًا
اور جب بھی وہ آپ کے سامنے انوکھی بات لے کر آئے اس کا ہم نے آپ کو بر وقت ٹھیک جواب دے دیا ہے اور بہترین طریقے سے بات کو کھول دیا۔“ (٣٣)
اس لئے فرمایا : ﴿ وَلَا يَأْتُونَكَ بِمَثَلٍ ﴾ ” اور یہ لوگ کوئی بھی ایسی مثال آپ کے سامنے پیش نہیں کریں گے۔“ جس سے وہ حق کے ساتھ معارضہ (مقابلہ) کریں اور آپ کی رسالت کا انکار کریں۔ ﴿ إِلَّا جِئْنَاكَ بِالْحَقِّ وَأَحْسَنَ تَفْسِيرًا ﴾ ” مگر ہم اس کا سچا جواب اور عمدہ توجیہ آپ کو بتا دیں گے۔“ یعنی ہم نے آپ پر قرآن نازل کیا جو اپنے معانی میں جامع، اپنے الفاظ میں واضح اور بیان کامل کا حامل ہے۔ اس کے تمام معانی حق اور صداقت پر مبنی ہیں جس میں کسی بھی پہلو سے باطل کا کوئی شائبہ نہیں، تمام اشیاء کے بارے میں اس کے الفاظ اور حدود انتہائی واضح، مفصل اور معانی کو کامل طور پر بیان کرتے ہیں۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ علم میں بحث کرنے والے محدث، معلم یا واعظ کے لئے مناسب ہے کہ وہ اپنے رب کی تدبیر کی پیروی کرے جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احوال کے مطابق تدبیر فرمائی اسی طرح اس عالم کو چاہیے کہ وہ مخلوق کے معاملے کی اسی طرح تدبیر کرے جب بھی کوئی ایسا موجب اور موقع پیش آئے تو موقع کی مناسبت سے لوگوں میں آیات قرآنی، احادیث نبوی اور مواعظ بیان کرے۔ نیز ان آیات کریمہ میں جہمیہ کا رد ہے جو قرآن کریم کی تفسیر میں تکلف سے کام لیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ قرآن کی بہت سی نصوص کو ان کے ظاہری معنوں پر محمول نہیں کیا جائے گا، ان کے اصل معانی ان معانی سے مختلف ہیں جو ظاہر میں سمجھ میں آتے ہیں تب اگر ان کی اس بات کو تسلیم کرلیا جائے تو قرآن کی یہ تفسیر ” احسن تفسیر“ نہیں ہوگی ان کے زعم باطل کے مطابق، احسن تفسیر تو وہ ہے، جس کے لئے وہ معانی میں تحریف کرتے ہیں۔