الْمُلْكُ يَوْمَئِذٍ الْحَقُّ لِلرَّحْمَٰنِ ۚ وَكَانَ يَوْمًا عَلَى الْكَافِرِينَ عَسِيرًا
اس دن حقیقی بادشا ہی صرف الرّحمان کی ہوگی وہ دن منکرین کے لیے بڑاسخت ہوگا۔“ (٢٦)
﴿ الْمُلْكُ يَوْمَئِذٍ ﴾ ” بادشاہی اس روز“ یعنی قیامت کے روز ﴿ الْحَقُّ لِلرَّحْمـٰنِ ﴾ ” رحمان ہی کے لئے صحیح طور پر ہوگی۔“ یعنی مخلوقات میں سے کسی کے لئے کوئی اختیار یا اختیار واقتدار کی کوئی صورت نہیں ہوگی جس طرح کہ وہ دنیا میں تھے۔ بلکہ بادشاہ اور ان کی رعایا۔ آزاد اور غلام، اشرف اور نیچ سب برابر ہوں گی اور جس چیز سے دل کو راحت اور نفس کو اطمینان حاصل ہوتا ہے، وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قیامت کے روزاقتدار کی اپنے اسم مبارک ﴿ الرَّحْمَـٰن﴾ کی طرف اضافت کی ہے۔ جس کی رحمت ہر چیز پر سایہ کناں ہے اللہ تعالیٰ کی رحمت ہر زندہ کے لئے عام ہے، اس نے تمام کائنات کو لبریز کر رکھا ہے، دنیا وآخرت اللہ تعالیٰ کی رحمت سے معمور ہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ہر ناقص کامل ہوجاتا ہے اور اس کی رحمت سے ہر نقص زائل ہوجاتا ہے۔ اس کی رحمت پر دلالت کرنے والے اسمائے حسنیٰ ان اسمائے حسنیٰ پر غالب ہیں جو اس کے غضب پر دلالت کرتے ہے۔ اس کی رحمت کو اس کے غضب پر سبقت حاصل ہے، اس کی رحمت غضب پر غالب ہے۔ پس اس کے لئے سبقت اور غلبہ ہے۔ یہ کمزور آدمی اس لئے پیدا کیا گیا ہے اور اسے عزت وتکریم اس لئے عطا کی گئی ہے تاکہ اللہ تعالیٰ اس پر اپنی نعمت کا اتمام کرے اور اسے اپنی نعمت سے ڈھانپ لے۔ لوگ تذلل، خضوع اور انکسار کی حالت میں اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو کر انتظار کریں گے کہ وہ کیا حکم جاری کرتا ہے درآنحالیکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر اس سے بھی زیادہ رحم کرتا ہے جتنا وہ خود اپنے آپ پر رحم کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے والدین سے بھی زیادہ رحیم ہے۔ پس آپ کا کیا خیال ہے وہ اپنے بندوں کے ساتھ کیسا معاملہ کرے گا؟ اور اللہ تعالیٰ صرف اسی کو ہلاک کرے گا جو خود ہلاک ہونا چاہتا ہے، اس کی رحمت کے دائرے سے صرف وہی خارج ہوگا جس پر بدبختی غالب آگئی ہو اور جس پر عذاب واجب ٹھہر گیا ہو۔