قُلْ أَنزَلَهُ الَّذِي يَعْلَمُ السِّرَّ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ إِنَّهُ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا
اے نبی ان سے کہو کہ اسے نازل کیا ہے اس نے جو زمین و آسمانوں کا بھید جانتا ہے حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑاغفورورحیم ہے۔“ (٦)
نیز اللہ تعالیٰ کا اپنے وسیع علم کا ذکر کرنا، ان کو قرآن میں تدبر کرنے کی طرف متوجہ کرتا ہے، اگر انہوں نے قرآن میں تدبر کیا ہوتا تو وہ اس کے علم اور احکام میں کوئی ایسی چیز ضرور دیکھتے جو قطعی طور پر دلالت کرتی کہ یہ قرآن غائب اور حاضر، تمام امور کا علم رکھنے والی ہستی کے سوا، کسی کی طرف سے نہیں۔۔۔ ان کے توحید و رسالت کا، جو ان پر اللہ تعالیٰ کا لطف و کرم ہے۔۔۔ انکار کرنے کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کے ظلم کے حوالے کر کے چھوڑ نہیں دیا بلکہ ان کو توبہ و انابت کی طرف بلایا اور ان کے ساتھ وعدہ کیا کہ اگر وہ توبہ کریں گے تو وہ ان کو اپنی رحمت اور مغفرت سے نوازے گا۔ فرمایا : ﴿ إِنَّهُ كَانَ غَفُورًا ﴾ ” وہ بہت بخشنے والا ہے۔“ یعنی اس کا وصف یہ ہے کہ وہ مجرموں اور گناہ گاروں کو بخش دیتا ہے، جب وہ مغفرت کے اسباب کام میں لاتے ہیں۔ یعنی وہ گناہوں سے رجوع کر کے توبہ کرتے ہیں۔ ﴿ رَّحِيمًا ﴾ وہ ان پر بہت رحم کرنے والا ہے کیونکہ اس نے ان کو سزا دینے میں جلدی نہیں کی حالانکہ انہوں نے اس کے تقاضوں کو پورا کردیا تھا۔ ان کی نافرمانیوں کے بعد اس نے ان کی توبہ قبول فرمائی، ان کی برائیوں کے ارتکاب کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کی برائیوں کو مٹا دیا، اس نے ان کی نیکیوں کو قبول فرمایا، اس نے اپنے سے دور بھاگنے کے بعد اپنی طرف رجوع کرنے والوں کو اور رو گردانی کے بعد اپنی طرف متوجہ ہونے والوں کو اطاعت مندوں اور رجوع کرنے والوں کی حالت کی طرف لوٹا دیا۔