سورة المؤمنون - آیت 101

فَإِذَا نُفِخَ فِي الصُّورِ فَلَا أَنسَابَ بَيْنَهُمْ يَوْمَئِذٍ وَلَا يَتَسَاءَلُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

پھرجونہی صور پھونک دیا گیا۔ ان کے درمیان پھر کوئی رشتہ نہ رہے گا اور نہ وہ ایک دوسرے سے کچھ پوچھ سکیں گے۔“ (١٠١)

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تبارک و تعالیٰ قیامت کے روز کی ہولناکیوں اور دل دہلا دینے والے مناظر کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے۔ جب انسانوں کو ان کی قبروں سے اٹھانے کے لیے صور پھونکا جائے گا اور تمام لوگوں کو ایک مقررہ مقام پر اکٹھا کیا جائے گا تو لوگ اس وقت ہول اور دہشت میں مبتلا ہوں گے وہ اپنے نسبی تعلق تک کو بھول جائیں گے جو کہ سب سے زیادہ طاقتور تعلق ہوتا ہے۔ جب ایسا ہوگا تو نسب کے علاوہ تعلقات تو زیادہ آسانی سے بھول جائیں گے اور نفسا نفسی کے اس عالم میں کوئی کسی کا حال نہیں پوچھے گا۔ کسی کو علم نہیں ہوگا کہ آیا اسے نجات مل جائے گی یا نہیں، ایسی نجات کہ اس کے بعد بدبختی قریب نہیں پھٹکے گی؟ یا وہ ایسی بدبختی سے دو چار ہوگا کہ اس کے بعد کبھی خوش بختی سے بہرہ مند نہیں ہوگا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ يَوَدُّ الْمُجْرِمُ لَوْ يَفْتَدِي مِنْ عَذَابِ يَوْمِئِذٍ بِبَنِيهِ وَصَاحِبَتِهِ وَأَخِيهِ وَفَصِيلَتِهِ الَّتِي تُؤْوِيهِ وَمَن فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا ثُمَّ يُنجِيهِ ﴾ (المعارج : 70؍11- 14)” اس دن مجرم چاہے گا کہ اس دن کے عذاب کے بدلے میں سب کچھ دے دے یعنی اپنے بیٹوں، بیوی، بھائی اور اپنے خاندان کو جو اسے پناہ دیتا تھا اور زمین کی ہر چیز فدیہ میں دے کر عذاب سے نجات حاصل کرلے۔“ اور جیسا کہ ارشاد ہے۔ ﴿ فَإِذَا جَاءَتِ الصَّاخَّةُ يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ أَخِيهِ وَأُمِّهِ وَأَبِيهِ وَصَاحِبَتِهِ وَبَنِيهِ لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ يَوْمَئِذٍ شَأْنٌ يُغْنِيهِ ﴾ (عبس :80؍33،37)” جب قیامت برپا ہوگی تو اس دن آدمی اپنے بھائی سے دور بھاگے گا، اپنی ماں اور باپ سے، بیوی اور بیٹوں سے دور بھاگے گا۔ اس روز ہر شخص اپنی ہی فکر میں مبتلا ہوگا جو اسے دوسروں سے بے پروا کر دے گی۔“ قیامت کے روز بعض مقامات ایسے ہوں گے جو شدید کرب ناک اور سخت تکلیف دہ ہوں گے جیسے میزان عدل کا مقام، جہاں بندے کے اعمال کا وزن کیا جائے گا اور نہایت عدل و انصاف سے دیکھا جائے گا کہ اس کے نیک اور بد اعمال کیا ہیں اور اس وقت نیکی اور بدی کا ذرہ بھر وزن بھی ظاہر ہوجائے گا۔