سورة المؤمنون - آیت 83

لَقَدْ وُعِدْنَا نَحْنُ وَآبَاؤُنَا هَٰذَا مِن قَبْلُ إِنْ هَٰذَا إِلَّا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

ہم نے یہ وعدے بہت سنے ہیں اور ہم سے پہلے ہمارے باپ دادا بھی سنتے رہے ہیں۔ یہ محض پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں۔“ (٨٣)

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿ لَقَدْ وُعِدْنَا نَحْنُ وَآبَاؤُنَا هَـٰذَا مِن قَبْلُ ﴾ یعنی ہمارے ساتھ ہمیشہ سے یہ وعدہ کیا جاتا رہا ہے کہ قیامت آئے گی، ہمیں اور ہمارے آباء و اجداد کو دوبارہ زندہ کیا جائے گا اور ہم نے تو اسے نہیں دیکھا اور نہ آئندہ ہی وہ آئے گی۔ ﴿ إِنْ هَـٰذَا إِلَّا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ ﴾ یہ تو محض قصے کہانیاں ہیں جو کھیل کے طور پر بیان کی جاتی ہیں ورنہ ان کی کوئی حقیقت نہیں۔ وہ جھوٹ کہتے ہیں۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ ان کا برا کرے۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی نشانیوں کا مشاہدہ کروایا جو قیامت کے برباد ہونے سے بھی بڑی ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ لَخَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ ﴾(المومن : 40؍57)” آسمانوں اور زمین کی تخلیق یقیناً انسان کی تخلیق سے زیادہ بڑا کام ہے۔“ اور فرمایا : ﴿ وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَنَسِيَ خَلْقَهُ ۖ قَالَ مَن يُحْيِي الْعِظَامَ وَهِيَ رَمِيمٌ ﴾ (یٰس :36؍78)” وہ ہمارے لیے مثالیں بیان کرتا ہے اور اپنی تخلیق کو بھول جاتا ہے اور کہتا ہے ان ہڈیوں کو کون زندہ کرے گا جبکہ یہ بوسیدہ ہو کر مٹی بن چکی ہوں گی۔“ اور فرمایا : ﴿ وَتَرَى الْأَرْضَ هَامِدَةً فَإِذَا أَنزَلْنَا عَلَيْهَا الْمَاءَ اهْتَزَّتْ ﴾ (الحج :22؍5) ” تو زمین کو دیکھتا ہے کہ وہ سوکھی پڑی ہے، ہم نے اس پر پانی برسایا تو وہ لہلہا اٹھی اور پھول گئی۔ “