سورة البقرة - آیت 263

قَوْلٌ مَّعْرُوفٌ وَمَغْفِرَةٌ خَيْرٌ مِّن صَدَقَةٍ يَتْبَعُهَا أَذًى ۗ وَاللَّهُ غَنِيٌّ حَلِيمٌ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اچھی بات کرنا اور معاف کردینا اس صدقہ سے بہتر ہے جس کے بعد تکلیف دی جائے۔ اور اللہ تعالیٰ بڑابے نیاز اور نہایت بردبار ہے

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿ قَوْلٌ مَّعْرُوفٌ﴾” اچھی بات“۔ جس کو دل پہچانتے ہیں اور اسے ناپسند نہیں کرتے۔ اس میں ہر اچھی بات شامل ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ مسلمان کے دل کی خوشی کا باعث بننا کار ثواب ہے۔ اس میں یہ اشارہ بھی ہے کہ سائل کو جواب دینا ہو تو اچھے الفاظ سے جواب دیا جائے اور اسے دعا دی جائے۔﴿ وَمَغْفِرَةٌ﴾” اور برائی کرنے والے کو معاف کردینا۔“ یعنی اسے مواخذہ نہ کرنا۔ اس میں یہ بھی شامل ہے کہ اگر سائل کوئی نامناسب حرکت کرے تو اسے معاف کردیا جائے۔ یہ دونوں احسان ایسے ہیں، جن کے ساتھ ان کو تباہ کرنے والی کوئی غلطی موجود نہیں۔ لہٰذا یہ اس صدقے کے احسان سے بہتر ہیں، جن کے ساتھ احسان جتلانے کی یا کسی اور انداز سے تکلیف پہچانے کی خرابی موجود ہے۔ اس آیت سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ جس صدقہ کے ساتھ تکلیف پہنچانے کی خرابی موجود نہ ہو، وہ صدقہ نرم بات کہنے اور معاف کرنے سے افضل ہے۔ صدقہ کر کے احسان جتلانا حرام ہے جس سے عمل ضائع ہوجاتا ہے۔ کیونکہ اصل احسان اللہ ہی کا ہے۔ لہٰذا بندے کے لئے مناسب نہیں کہ کسی کو ایسا احسان جتلائے جو اس کی طرف سے نہیں ہوا (بلکہ اصل میں اللہ کی طرف سے ہوا ہے) علاوہ ازیں احسان جتلانا غلام بنانے کے مترادف ہے اور عبودیت اور جھکنا صرف اللہ کے لئے روا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ غنی ہے۔ جو تمام مخلوقات سے مستغنی ہے اور تمام مخلوقات تمام حالات اور تمام اقوات میں اس کی محتاج ہیں، لہٰذا تمہارا صدقہ، تمہارا خرچ کرنا اور تمہاری نیکیاں ان سب کا فائدہ خود تم ہی کو حاصل ہوتا ہے۔﴿ وَاللَّـهُ غَنِيٌّ﴾” اور اللہ بے نیاز ہے،اسے ان کی ضرورت نہیں، اسے ان کی ضرورت نہیں، اس کے ساتھ ساتھ وہ ﴿حَلِيمٌ ﴾ ” بردبار ہے“ جو اس کی نافرمانی کرے اسے فوراً سزا نہیں دیتا، حالانکہ وہ اس کی قدرت رکھتا ہے۔ لیکن اس کی رحمت، احسان اور برد باری اسے گناہگاروں کو فوری سزا دینے سے مانع ہوجاتی ہے۔ بلکہ وہ انہیں مہلت دیتا ہے، انہیں مختلف انداز سے اپنی آیات سناتا اور دکھاتا ہے، تاکہ وہ اس کی طرف رجوع کریں، البتہ جب یہ ظاہر ہوجاتا ہے کہ ان لوگوں میں خیر کی کوئی رمق نہیں رہی اور انہیں آیات سے کوئی فائدہ نہیں ہو رہا۔ پھر ان پر عذاب نازل فرما دیتا ہے اور اپنے عظیم ثواب سے محروم فرما دیتا ہے۔