وَأَذِّن فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالًا وَعَلَىٰ كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِن كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ
” اور لوگوں میں حج کے لیے اعلان کرو کہ وہ تمہارے پاس ہر دوردراز مقام سے پیدل اور اونٹوں پر سوار ہو کر آئیں۔“ (٢٧)
﴿وَأَذِّن فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ﴾ یعنی حج کے بارے میں ان کو آگاہ کیجئے اور ان کو حج کی دعوت دیجئے، نیز قریب اور دور کے رہنے والے تمام لوگوں کو حج کی فرضیت اور اس کی فضیلت کی تبلیغ کیجئے کیونکہ جب آپ ان کو حج کی دعوت دیں گے تو حج کے ارادے سے آپ کے پاس آئیں گے اور اس گھر کو آباد کرنے کے شوق میں پیدل چل کر آئیں گے ﴿وَعَلَىٰ كُلِّ ضَامِرٍ﴾ لاغر اونٹنیوں پر مسلسل سفر کرتے ہوئے، صحراؤں اور بیابانوں کو چیرتے ہوئے سب سے زیادہ شرف کے حامل اس مقام پر پہنچیں گے ﴿مِن كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ ﴾ ” دور دراز کی تمام راہوں سے۔“ یعنی لوگ تمام دور دراز کے شہروں سے پہنچیں گے۔ حضرت خلیل علیہ السلام نے لوگوں میں حج کا اعلان فرمایا۔ آپ کے بعد آپ کے بیٹے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی تعمیل کی۔ دونوں مقدس ہستیوں نے لوگوں کو اس گھر کے حج کی دعوت دی، ان دونوں نے ابتداء کی اور اس کا اعادہ کیا اور وہ مقصد حاصل ہوگیا جس کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا تھا۔۔۔ اور لوگ مشرق و مغرب سے پیدل اور سوار ہو کر بیت اللہ کی زیارت کے لئے پہنچے۔