وَهُدُوا إِلَى الطَّيِّبِ مِنَ الْقَوْلِ وَهُدُوا إِلَىٰ صِرَاطِ الْحَمِيدِ
ان کو پاکیزہ بات قبول کرنے کی ہدایت بخشی گئی اور انہیں قابل تعریف خدا کا راستہ دکھایا گیا تھا۔“ (٢٤)
یہ سب کچھ اس سبب سے عطا ہوگا کہ ﴿وَهُدُوا إِلَى الطَّيِّبِ مِنَ الْقَوْلِ﴾ ” ان کی رہنمائی پاکیزہ بات کی طرف کی گئی۔“ جس میں سب سے افضل اور سب سے اچھا قول کلمہ، اخلاص ہے، پھر دیگر تمام اقوال طیبہ ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے یا اللہ تعالیٰ کی عبادت کو اچھے طریقے سے کرنا ہے۔ ﴿وَهُدُوا إِلَىٰ صِرَاطِ الْحَمِيدِ﴾ ” اور ان کی رہنمائی کی گئی صراط حمید کی طرف۔“ یعنی قابل ستائش طریقے کی طرف۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شریعت الٰہی تمام تر حکمت، اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا، مامورات کے حسن اور منہیات کی قباحت پر مشتمل ہے اور یہ ایک ایسا دین ہے جس میں کوئی افراط اور تفریط نہیں جو علم نافع اور عمل صالح پر مبنی ہے۔ یا اس کا معنی یہ ہے کہ ان کی اللہ تعالیٰ کے راستے کی طرف رہنمائی کی گئی، وہ اللہ جو قابل تعریف ہے۔ اس لئے کہ اکثر راستے کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جاتی ہے، کیونکہ وہ چلنے والے کو اللہ تعالیٰ تک پہنچاتا ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے )الحمید( کا ذکر فرمایا کیونکہ اہل ایمان یعنی اس راستے پر گامزن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا اور اس کے احسان ہی کی بنا پر ہدایت حاصل کی۔ بنا بریں وہ جنت میں کہیں گے : ﴿الْحَمْدُ لِلَّـهِ الَّذِي هَدَانَا لِهَـٰذَا وَمَا كُنَّا لِنَهْتَدِيَ لَوْلَا أَنْ هَدَانَا اللّٰـهُ﴾ )الاعراف : 7؍43)” ہر قسم کی ستائش اللہ ہی کیلئے ہے جس نے ہمیں جنت کی راہ دکھائی، ہم خود کبھی یہ راہ نہ پا سکتے اگر اللہ ہمیں یہ راہ نہ دکھاتا۔ “