أَمِ اتَّخَذُوا آلِهَةً مِّنَ الْأَرْضِ هُمْ يُنشِرُونَ
” کیا ان لوگوں کے بنائے ہوئے معبود زمین پر ہیں کہ جو زندہ کرسکتے ہوں؟ (٢١)
اللہ تعالیٰ نے اپنے کامل اقتدار اور اپنی عظمت کا ذکر کرنے اور اس حقیقت کو بیان کرنے کے بعد، کہ ہر چیز اس کے سامنے سرنگوں ہے، مشرکین پر نکیر کی جنہوں نے اللہ کے سوا زمین سے معبود بنا لئے ہیں جو انتہائی عاجز اور قدرت سے محروم ہیں ﴿ هُمْ يُنشِرُونَ ﴾ ” وہ ان کو ان کے مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرسکیں گے؟“ یہ استفہام نفی کے معنی میں ہے، یعنی وہ ان کے حشر و نشر پر قادر نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد اس آیت کریمہ کی تفسیر کرتا ہے۔ ﴿وَاتَّخَذُوا مِن دُونِهِ آلِهَةً لَّا يَخْلُقُونَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ وَلَا يَمْلِكُونَ لِأَنفُسِهِمْ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا وَلَا يَمْلِكُونَ مَوْتًا وَلَا حَيَاةً وَلَا نُشُورًا﴾( الفرقان: 25؍3) انہوں نے اللہ کوچھوڑکرایسے الہ بنالیےہیں جوکسی چیز کوپیدانہیں کرسکتے بلکہ وہ توخود پیدا کیے جاتےہیں وہ خود اپنے لیےکسی نقصان کا اختیار رکھتےہیں نہ نفع کا اورنہ وہ موت وحیات کا اختیار رکھتےہیں اور نہ دوبارہ جی اٹھنے کا۔“ اور فرمایا : ﴿وَاتَّخَذُوا مِن دُونِ اللّٰـهِ آلِهَةً لَّعَلَّهُمْ يُنصَرُونَ لَا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَهُمْ وَهُمْ لَهُمْ جُندٌ مُّحْضَرُونَ ﴾(یٰسین : 36، 74، 75) پس مشرک مخلوق کی عبادت کرتا ہے جو کسی نفع و نقصان کی مالک نہیں اور اللہ تعالیٰ کے لئے اخلاص کو ترک کردیتا ہے جو تمام کمالات کا مالک ہے اور تمام معاملات اور نفع و نقصان اسی کے قبضہ قدرت میں ہیں۔ یہ توفیق سے محرومی، اس کی بد قسمتی، اس کی جہالت کی فروانی اور اس کے ظلم کی شدت ہے۔ یہ وجودکائنات صرف ایک ہی الٰہ کے لئے درست اور لائق ہے اور اس وجود کائنات میں صرف ایک ہی رب موجود ہے