سورة طه - آیت 131

وَلَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلَىٰ مَا مَتَّعْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِّنْهُمْ زَهْرَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا لِنَفْتِنَهُمْ فِيهِ ۚ وَرِزْقُ رَبِّكَ خَيْرٌ وَأَبْقَىٰ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اور نہ دراز کریں اپنی نگاہ کو دینوی زندگی کی شان و شوکت کی طرف جو ہم نے ان میں سے کئی قسم کے لوگوں کو دے رکھی ہے ہم نے انہیں آزمانے کے لیے دنیا دی ہے اور آپ کے رب کا دیا ہوا رزق ہی بہتر اور باقی رہنے والا ہے۔“ (١٣١)

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

یعنی دنیا اور اس کی متاع، مثلاً لذیذ ما کو لات و مشروبات، ملبوسات فاخرہ، آراستہ کئے ہوئے گھروں اور حسین و جمیل عورتوں سے حظ اٹھانے والوں کے احوال کو استحسان اور پسندیدگی کی نظر سے دوبارہ نہ دیکھیں، اس لئے کہ یہ سب کچھ دنیا کی خوبصورتی ہے اور اس سے صرف فریب خوردہ لوگ ہی خوش ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے روگردانی کرنے والوں کی نظریں ہی اسے پسندیدگی سے دیکھتی ہیں۔ آخرت سے قطع نظر کرکے، صرف ظالم لوگ ہی اس سے متمتع ہوتے ہیں۔ پھر یہ دنیا سب کی سب، تیزی سے گزر جاتی ہے، اپنے چاہنے والوں اور عشاق کو بے موت مار دیتی ہے۔ پس دنیا سے محبت کرنے والے لوگ اس وقت نادم ہوں گے جب ندامت کوئی فائدہ نہیں دے گی اور قیامت کے روز جب اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوں گے تب انہیں اپنی بے مائیگی کا علم ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے تو اس دنیا کو فتنہ اور آزمائش بنایا ہے تاکہ معلوم ہو کہ کون اس کے پاس ٹھہرتا اور اس کے فریب میں مبتلا ہوتا ہے اور کون اچھے عمل کرتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿إِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الْأَرْضِ زِينَةً لَّهَا لِنَبْلُوَهُمْ أَيُّهُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا  وَإِنَّا لَجَاعِلُونَ مَا عَلَيْهَا صَعِيدًا جُرُزًا ﴾ (الکھف :18؍7۔ 8) ” جو کچھ زمین پر موجود ہے اس کو ہم نے زمین کی زینت بنایا ہے تاکہ ہم ان کو آزمائیں کہ ان میں سے کون اچھے کام کرتا ہے۔ پھر جو کچھ اس زمین پر ہے ہم سب کو ایک چٹیل میدان بنا دینے والے ہیں“۔ ﴿وَرِزْقُ رَبِّكَ﴾ ” اور تیرے رب کا رزق“ دنیاوی رزق یعنی علم، ایمان اور عمال صالحہ کے حقائق، اخروی رزق یعنی ہمیشہ رہنے والی نعمتیں اور رب رحیم کے جوار رحمت میں سلامتی سے بھرپور زندگی۔ ﴿خَيْرٌ﴾ اپنی ذات و صفات میں اس زندگی سے بہتر ہے جو ہم نے مختلف قسم کے لوگوں کو دے رکھی ہے ﴿ وَأَبْقَىٰ﴾ ” اور پائیدار ہے ” کیونکہ اس کے پھل کبھی ختم نہ ہوں گے اور اس کے سائے دائمی ہوں گے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿بَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا  وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ وَأَبْقَىٰ﴾ (الاعلٰی: 87؍16۔ 17) ” مگر تم دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو، حالانکہ آخرت کی زندگی بہتر اور ہمیشہ رہنے والی ہے“۔ اس آیت کریمہ میں اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ بندہ جب دیکھے کہ اس کا نفس سرکشی اختیار کرکے دنیا کی زیب و زینت کی طرف مائل اور متوجہ ہے تو وہ اپنے رب کے اس رزق کو یاد کرے جو آئندہ زندگی میں اسے عطا ہونے والاہے۔ پھر ان دونوں کے درمیان موازنہ کرے۔