سورة طه - آیت 7

وَإِن تَجْهَرْ بِالْقَوْلِ فَإِنَّهُ يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفَى

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

تم بلند آواز سے بات کرو یا چپکے سے۔ وہ خفیہ سے خفیہ کی ہوئی بات کو یقینا جانتا ہے۔“ (٧)

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿وَإِن تَجْهَرْ بِالْقَوْلِ فَإِنَّهُ يَعْلَمُ السِّرَّ ﴾ ” اور اگر آپ اونچی بات کہیں تو وہ تو جانتا ہے سری بات کو بھی۔“ یعنی پوشیدہ کلام کو ﴿وَأَخْفَى  ﴾ ”اور سری سے بھی زیادہ مخفی بات کو۔“ یعنی خفی سے خفی تر بات، جو انسان کے دل میں ہوتی ہے اور ابھی نطق زبان پر نہیں آئی ہوتی۔ یا (السِّرَّ ) سے مراد وہ خیال ہے جو انسان کے دل میں آتا ہے اور (أَخْفَى  ) سے مراد وہ خیال ہے جسے ابھی دل میں آنا ہے اور ابھی تک نہیں آیا۔ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ کب وہ خیال اپنے وقت پر اپنی صفت کے ساتھ دل میں داخل ہوگا۔ معنی یہ ہے کہ علم الٰہی، چھوٹی بڑی اور ظاہر و باطن تمام اشیاء کا احاطہ کئے ہوئے ہے، اس لئے آپ بلند آواز سے بولیں یا آہستہ آواز سے، علم الٰہی کی نسبت سے سب برابر ہے۔ جب یہ بات متحقق ہوگئی کہ وہ کمال مطلق کا مالک ہے، اپنی تخلیق کے عموم کی وجہ، اپنے امرو نہی اور اپنی رحمت کے عموم کی وجہ سے، اپنی عظمت کی وسعت اور اپنے عرش پر بلند ہونے کی وجہ سے اور اپنی بادشاہی اور اپنے علم کے عموم کی وجہ سے، تو اس سے یہ نتیجہ نکلا کہ صرف وہی عبادت کا مستحق ہے اور اسی کی عبادت حق ہے جس کو شریعت اور عقل و فطرت واجب ٹھہرتای ہے اور غیر اللہ کی عبادت باطل ہے۔