يَا أَبَتِ إِنِّي أَخَافُ أَن يَمَسَّكَ عَذَابٌ مِّنَ الرَّحْمَٰنِ فَتَكُونَ لِلشَّيْطَانِ وَلِيًّا
اے ابا جان مجھے ڈر ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کو رحمان کا عذاب آ پہنچے اور آپ شیطان کے ساتھی بن کررہ جائیں۔“ (٤٥)
جیسے اللہ تعالیٰ کی اطاعت، رحمت الٰہی کے حصول کا سب سے بڑا سبب ہے، اس لئے فرمایا : ﴿ يَا أَبَتِ إِنِّي أَخَافُ أَن يَمَسَّكَ عَذَابٌ مِّنَ الرَّحْمَـٰنِ﴾ ” ابا جان ! مجھے اندیشہ ہے کہ آپ کو کہیں رحمٰن کی طرف سے عذاب نہ آ لے“ یعنی کفر پر آپ کے اصرار اور سرکشی میں آپ کے بڑھتے چلے جانے کے سبب سے۔ ﴿فَتَكُونَ لِلشَّيْطَانِ وَلِيًّا ﴾ ” پس آپ شیطان کے دوست ہوجائیں“ یعنی دنیا و آخرت میں۔ پس آپ اس کے مذموم مقام و منزلت پر اتار دیئے جائیں اور شیطان کی ضرر رساں اور گندی چراگاہ میں چریں۔ اور یوں حضرت خلیل علیہ السلام نے اپنے باپ کو آسان سے آسان تر امر کی طرف دعوت دی۔ آپ نے اسے اپنے علم کے ذریعے سے بتایا کہ یہ چیز آپ پر میری اطاعت کی موجب ہے اگر آپ میری اطاعت کریں گے تو میں سیدھے راستے کی طرف آپ کی راہنمائی کروں گا، پھر آپ نے اسے شیطان کی عبادت سے منع فرمایا اور اسے ان مضرتوں کے بارے میں خبردار کیا جو شیطان کی عبادت میں پنہاں ہیں، پھر اسے اللہ تعالیٰ کے عذاب اور اس کی ناراضی سے ڈرایا کہ اگر وہ اپنے اسی حال پر قائم رہا تو اسے اللہ تعالیٰ کے عذاب اور ناراضی کاسامنا کرنا پڑے گا اور وہ شیطان کا دوست شمار ہوگا۔