يَا أَبَتِ إِنِّي قَدْ جَاءَنِي مِنَ الْعِلْمِ مَا لَمْ يَأْتِكَ فَاتَّبِعْنِي أَهْدِكَ صِرَاطًا سَوِيًّا
اے ابا جان میرے پاس ایک ایسا علم آیا ہے جو آپ کے پاس نہیں۔ آپ میرے پیچھے چلیں میں آپ کو سیدھا راستہ بتاؤں گا۔ (٤٣)
﴿ يَا أَبَتِ إِنِّي قَدْ جَاءَنِي مِنَ الْعِلْمِ مَا لَمْ يَأْتِكَ﴾ یعنی ابا جان ! مجھے حقیر نہ جانیں اور یہ نہ سمجھیں کہ میں آپ کا بیٹا ہوں اور یہ کہ جو کچھ آپ کے پاس ہے وہ میرے پاس نہیں بلکہ اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے وہ علم عطا کیا ہے جو آپ کو عطا نہیں کیا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس قول کا مقصد یہ کہنا تھا کہ ﴿فَاتَّبِعْنِي أَهْدِكَ صِرَاطًا سَوِيًّا ﴾ ” آپ میری پیروی کریں میں دکھلاؤں گا آپ کو سیدھا راستہ“ یعنی سیدھا اور معتدل راستہ اور وہ ہے اکیلے اللہ تعالیٰ کی عبادت اور تمام احوال میں اس کی اطاعت کرنا۔ اس خطاب میں جو لطف و کرم اور جو نرمی ہے وہ مخفی نہیں۔ آپ علیہ السلام نے یہ نہیں فرمایا کہ ” ابا جان میں عالم ہوں اور آپ جاہل ہیں“ یا ” آپ کے پاس کوئی علم نہیں“ آپ علیہ السلام نے اس پیرائے میں گفتگو فرمائی ” میرے پاس اور آپ کے پاس علم ہے مگر جو علم مجھ تک پہنچا ہے وہ آپ تک نہیں پہنچا، اس لئے آپ کے لئے مناسب یہی ہے کہ آپ دلیل کی پیروی کریں اور اس کے سامنے سرتسلیم خم کردیں۔ “