وَإِنَّ اللَّهَ رَبِّي وَرَبُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ ۚ هَٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيمٌ
” اور عیسیٰ نے کہا تھا۔ اللہ ہی میرا اور تمہارا رب ہے۔ پس تم اس کی ہی عبادت کرو یہی سیدھا راستہ ہے۔“ (٣٦)
تب حضرت عیسی ٰعلیہ السلام کو بغیر باپ کے وجود میں لانا کون سا مشکل کام ہے؟ اس لئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے بارے میں آگاہ فرمایا کہ وہ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں جس طرح دوسری مخلوق ہے۔ فرمایا : ﴿وَإِنَّ اللّٰـهَ رَبِّي وَرَبُّكُمْ ﴾ ” بے شک اللہ رب ہے میرا اور رب ہے تمہارا“ جس نے ہمیں پیدا کیا، ہماری صورت گری کی، ہم میں اس کی تدبیر نافذ ہوئی اور ہم میں اس کی تقدیر نے تصرف کیا۔ ﴿فَاعْبُدُوهُ﴾ ” پس تم اسی کی عبادت کرو“ یعنی عبادت کو صرف اسی کے لئے خالص کرو اور اس کی طرف انابت اور رجوع میں جدوجہد کرو۔ اس میں توحید ربوبیت اور توحید الوہیت کا اقرار اور توحید ربوبیت کے ذریعے سے توحید الوہیت پر استدلال ہے۔ اسی لئے فرمایا : ﴿هَـٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيمٌ﴾ ” یہ ہے راستہ سیدھا“ یعنی یہی اعتدال کا راستہ ہے جو اللہ تعالیٰ تک پہنچاتا ہے کیونکہ یہ انبیاء و مرسلین اور ان کے متبعین کا راستہ ہے اس کے سوا ہر راستہ گمراہی کا راستہ ہے۔