فَانطَلَقَا حَتَّىٰ إِذَا لَقِيَا غُلَامًا فَقَتَلَهُ قَالَ أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَكِيَّةً بِغَيْرِ نَفْسٍ لَّقَدْ جِئْتَ شَيْئًا نُّكْرًا
”پھر دونوں چل پڑے، یہاں تک کہ جب وہ ایک لڑکے سے ملے اس نے اسے قتل کردیا۔ موسیٰ نے کہا کیا تو نے ایک معصوم جان کو کسی جان کے بدلے کے بغیر قتل کردیا ہے بلاشبہ تو نے برا کام کیا ہے۔“
﴿فَانطَلَقَا حَتَّىٰ إِذَا لَقِيَا غُلَامًا﴾ ” پھر وہ دونوں چلے، یہاں تک کہ ایک بچے کو ملے“ یعنی چھوٹا سا بچہ ﴿ فَقَتَلَهُ﴾ ” پس (خضر نے) اس کو قتل کر ڈالا“ اس پر موسیٰ علیہ السلام سخت ناراض ہوئے۔ جب خضر نے اس چھوٹے سے بچے کو قتل کردیا جس سے کوئی گناہ صادر نہیں ہوا تو موسیٰ علیہ السلام کی حمیت دینی نے جوش مارا اور کہنے لگے : ﴿أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَكِيَّةً بِغَيْرِ نَفْسٍ لَّقَدْ جِئْتَ شَيْئًا نُّكْرًا ﴾ ” کیا آپ نے ایک ستھری جان بغیر عوض کسی جان کے مار ڈالی، بے شک آپ نے ایک نامعقول کام کیا۔“ چھوٹے سے معصوم بچے کے قتل جیسا برا کام اور کون سا ہوسکتا ہے، جس کا کوئی جرم نہیں اور نہ اس نے کسی کو قتل کیا ہے۔