وَمَا مَنَعَ النَّاسَ أَن يُؤْمِنُوا إِذْ جَاءَهُمُ الْهُدَىٰ وَيَسْتَغْفِرُوا رَبَّهُمْ إِلَّا أَن تَأْتِيَهُمْ سُنَّةُ الْأَوَّلِينَ أَوْ يَأْتِيَهُمُ الْعَذَابُ قُبُلًا
اور لوگوں کو کسی بات نے نہیں روکا کہ وہ ایمان لائیں، جب ان کے پاس ہدایت آگئی اور اپنے رب سے بخشش مانگیں مگر اس بات نے کہ ان کو پہلے لوگوں جیسا معاملہ پیش آجائے یا ان پر عذاب نازل ہو۔“ (٥٥)
یعنی لوگوں کو ایمان لانے سے کس چیز نے منع کیا ہے حالانکہ ہدایت جس سے راہ راست اور گمراہی، حق اور باطل کے درمیا ن فرق واضح ہوتا ہے ان تک پہنچ چکی ہے اور ان پر حجت قائم ہوچکی ہے۔۔۔ ان کے ایمان نہ لانے کی یہ وجہ بھی نہیں کہ حق واضح نہیں ہوا بلکہ ان کے ایمان نہ لانے کی وجہ ظلم و تعدی ہے۔ پس اب کوئی چیز باقی نہیں رہی سوائے اس کے کہ سنت الٰہی کے مطابق وہی عذاب آجائے جو پہلی قوموں پر آیا تھا؟ جب وہ ایمان نہ لاتے تو ان پر عذاب بھیج دیا جاتا یا عذاب ان کے سامنے آجاتا اور وہ اپنی آنکھوں سے اسے دیکھ لیتے۔۔۔ مطلب یہ ہے کہ پس انہیں ڈرنا چاہئے اور اپنے کفر سے توبہ کرلینی چاہئے قبل اس کے کہ ان پر عذاب ٹوٹ پڑے جسے روکا نہیں جاسکتا۔