سورة الكهف - آیت 45

وَاضْرِبْ لَهُم مَّثَلَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا كَمَاءٍ أَنزَلْنَاهُ مِنَ السَّمَاءِ فَاخْتَلَطَ بِهِ نَبَاتُ الْأَرْضِ فَأَصْبَحَ هَشِيمًا تَذْرُوهُ الرِّيَاحُ ۗ وَكَانَ اللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ مُّقْتَدِرًا

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اور ان کے لیے دنیا کی زندگی کی مثال بیان کیجیے، پانی جسے ہم نے آسمان سے اتارا اس کے ساتھ زمین کی انگوری خوب مل جل گئی پھر وہ چور، چورہو گئی، جسے ہوائیں اڑائے پھرتی ہیں اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔“ (٤٥) ”

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی سے اصلاً اور ان لوگوں سے تبعاً فرماتا ہے جو آپ کے بعد آپ کے قائم مقام ہیں کہ لوگوں کے سامنے دنیاوی زندگی کی مثال بیان کردیجیے تاکہ وہ اس زندگی کا اچھی طرح تصور کرلیں اور اس کے ظاہر و باطن کی معرفت حاصل کرلیں۔ پس وہ دنیاوی زندگی اور ہمیشہ باقی رہنے والی زندگی کے درمیان تقابل کریں اور ان میں جو ترجیح دیئے جانے کی مستحق ہے اسے ترجیح دیں۔ اس دنیاوی زندگی کی مثال بارش کی سی ہے جو آسمان سے زمین پر برستی ہے جس سے زمین کی روئیدگی بہت گھنی ہوجاتی ہے اور ہر قسم کی خوش منظر نباتات اگ آتی ہیں۔ پس اس وقت کہ جب اس کی خوبصورتی اور سجاوٹ دیکھنے والوں کو خوش کن لگتی ہے، لوگ اس سے فرحت حاصل کرتے ہیں اور زمین کا یہ حسن غافل لوگوں کی نظروں کو اپنی طرف متوجہ کرلیتا ہے کہ اچانک نباتات بھس بن کر رہ جاتی ہیں اور ہوائیں اسے اڑائے لے جاتی ہیں۔ پس وہ تروتازہ، خوبصورت اور خوش منظر روئیدگی ختم ہوجاتی ہے، زمین چٹیل میدان بن جاتی ہے جہاں خاک اڑتی ہے جس سے نظریں دور ہٹ جاتی ہیں اور دل وحشت محسوس کرتے ہیں۔ دنیا کی زندگی کا بھی یہی حال ہے دنیا کی زندگی میں مگن شخص کو اپنا شباب بہت اچھا لگتا ہے، وہ اس زندگی میں اپنے ساتھیوں اور ہم جولیوں سے آگے نکل جاتا ہے، اس کے درہم و دنیار کے حصول میں لگا رہتا ہے، اس کی لذت سے خوب حظ اٹھاتا ہے، ہر وقت اس کی شہوات کے سمندر میں غوطہ زن رہتا ہے اور وہ یہی سمجھتا ہے کہ زندگی بھر اس دنیا کی لذتیں اور شہوتیں زائل نہ ہوں گی۔۔۔ کہ اچانک موت اسے آلیتی ہے یا اس کا مال تلف ہوجاتا ہے۔ خوشیاں اس سے روٹھ جاتی ہیں، اس کی لذتیں اس سے چھن جاتی ہیں، اس کا قلب مصائب و آلام سے وحشت کھاتا ہے، اس کی جوانی، اس کی طاقت اور اس کا مال سب اس کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں اور وہ نیک یا برے اعمال کے ساتھ اکیلا باقی رہ جاتا ہے۔ یہی وہ حال ہے کہ جب ظالم کو اس کی حقیقت کا علم ہوگا تو اپنے ہاتھوں کو کاٹے گا۔ وہ تمنا کرے گا کہ اسے دنیا میں واپس بھیجا جائے، اس لئے نہیں کہ وہ ان شہوات کو پورا کرے جو نامکمل رہ گئی تھیں بلکہ اس لئے کہ اس سے غفلت میں جو کو تاہیاں صادر ہوئیں تو بہ و استغفار اور اعمال صالحہ کے ذریعے سے ان کی تلافی کرسکے، لہٰذا عقل مند اور پختہ ارادے والا شخص، جسے توفیق سے نوازا گیا ہو، اپنے آپ پر یہی حالت طاری کرتا ہے اور اپنے آپ سے کہتا ہے : ’’فرض کرلو کہ تم مر چکے ہو“ اور موت ایک یقینی امر ہے۔ پس مذکورہ دونوں حالتوں میں سے کون سی حالت کو تو اختیار کرتا ہے؟ اس دنیا کی زیب و زینت سے دھوکہ کھانا، اس سے اس طرح فائدہ اٹھانا جس طرح چراگاہ میں مویشی چرتے ہیں یا ایسی جنت کے حصول کی خاطر عمل کرنا جس کے پھل ہمیشہ رہنے والے اس کے سائے بہت گھنے ہیں۔ وہاں وہ سب کچھ ہوگا جو دل چاہے گا اور آنکھیں لذت حاصل کریں گی۔ پس یہی وہ حالت ہے جس کے ذریعے سے یہ معرفت حاصل ہوتی کہ بندے کو توفیق الٰہی سے نوازا گیا ہے یا اس کو اپنے حال پر چھوڑ دیا گیا ہے؟ اسے نفع حاصل ہوا ہے یا خسارہ؟ اسی لئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے آگاہ فرمایا ہے کہ مال اور بیٹے دنیا کی زندگی کی زیب و زینت ہیں اور اس سے آگے کچھ نہیں۔ انسان کے لئے جو کچھ باقی رہ جاتا اور جو اسے فائدہ اور خوشی دیتا ہے وہ باقی رہنے والی نیکیاں ہیں اور وہ واجب اور مستحب نیکی کے تمام کاموں کو شامل ہیں مثلاً: حقوق اللہ، حقوق العباد، نماز، زکوٰۃ، صدقہ، حج، عمرہ، تسبیح، تحمید، تہلیل، قراءت قرآن، طلب علم، نیکی کا حکم دینا برائی سے روکنا، صلہ رحمی، والدین کے ساتھ حسن سلوک، بیویوں کے حقوق پورے کرنا، غلاموں اور جانوروں کے حقوق کا احترام کرنا اور مخلوق کے ساتھ ہر لحاظ سے اچھا سلوک کرنا، یہ تمام باقی رہنے والی نیکیاں ہیں یہی وہ نیکیاں ہیں جن کا اجر اللہ تعالیٰ کے ہاں بہتر ہے اور انہی سے اچھی امیدیں وابستہ کی جاسکتی ہیں۔ ان کا اجر و ثواب باقی رہتا ہے اور ابد الآباد تک بڑھتا ہے۔ ان کے اجر و ثواب اور نفع کی ضرورت کے وقت امید کی جاسکتی ہے۔ پس یہی وہ کام ہیں کہ سبقت کرنے والوں کو ان کی طرف سبقت کرنی چاہئے، عمل کرنے والوں کو انہی کے لئے آگے بڑھنا چاہئے اور جدوجہد کرنے والوں کو ان کے حصول کے لئے جدوجہد کرنی چاہئے۔ غور کیجیے کہ جب اللہ تعالیٰ نے دنیا کی زندگی کے حال اور اس کے اضمحلال کی مثال دی تو اس کی دو قسمیں بیان کیں : (1) دنیاوی زندگی کی زیب و زینت، جس سے انسان بہت کم فائدہ اٹھاتا ہے۔ پھر بغیر کسی فائدے کے یہ دنیا زائل ہوجاتی ہے اور اس کا نقصان انسان کی طرف لوٹتا ہے بلکہ بسا اوقات اس کا نقصان اس کے لئے لازم ہوجاتا ہے۔ یہ مال اور بیٹے ہیں۔ (2) دوسری قسم وہ ہے جو انسان ک ےلیے ہمیشہ باقی رہتی ہے اور وہ ہیں باقی رہنے والی نیکیاں۔