سورة الإسراء - آیت 64

وَاسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْهُم بِصَوْتِكَ وَأَجْلِبْ عَلَيْهِم بِخَيْلِكَ وَرَجِلِكَ وَشَارِكْهُمْ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ وَعِدْهُمْ ۚ وَمَا يَعِدُهُمُ الشَّيْطَانُ إِلَّا غُرُورًا

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اور ان میں سے جس کو اپنی آواز کے ساتھ بہکا سکے بہکا اور اپنے سوار اور اپنے پیادے ان پر چڑھا لے اور اموال اور اولاد میں ان کا حصہ دار بن اور ان سے وعدے کر اور شیطان دھوکا دینے کے سوا ان سے کوئی وعدہ نہیں کرتا۔“ (٦٤) ”

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

پھر اللہ تعالیٰ شیطان کو حکم دیا کہ وہ اس کے بندوں کو گمراہ کرنے کے لیے پورا زور لگالے، چنانچہ فرمایا : ﴿وَاسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْهُم بِصَوْتِكَ﴾ ” اور بہکالے ان میں سے جس کو تو بہکا سکے اپنی آواز سے۔“ اس میں ہر وہ شخص داخل ہے جو معصیت کی طرف دعوت دیتا ہے۔ ﴿وَأَجْلِبْ عَلَيْهِم بِخَيْلِكَ وَرَجِلِكَ﴾ ” اور لے آ ان پر اپنے سوار اور پیادے۔“ ہر وہ شخص جو اللہ تعالیٰ کی معصیت میں سوار ہو کر یا پیدل بھاگ دوڑ کرتا ہے، شیطان کے سواروں اور پیادوں میں داخل ہے۔ مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اس کھلے دشمن کے ذریعے سے آزمائش میں ڈالا ہے جو اپنے قول و فعل کے ذریعے سے ان کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی طرف دعوت دیتا ہے ﴿وَشَارِكْهُمْ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ﴾ ” اور ساجھا کر ان سے مالوں میں اور اولاد میں۔“ اس میں ہر وہ معصیت شامل ہے جو ان کے مال اور اولاد سے متعلق ہے، مثلاً زکوٰۃ کفارات، حقوق واجبہ ادا نہ کرنا، اولاد کی بھلائی اختیار کرنے اور شرکو ترک کرنے کی تربیت نہ کرنا، ناحق مال لینا یا مال کو ناحق خرچ کرنا اور روز گار میں حرام ذریعے اختیار کرنا، وغیرہ بلکہ بہت سے مفسرین ذکر کرتے ہیں کہ کھانا کھاتے، پانی پیتے اور جمع کرتے وقت بسم اللہ سے ابتدا نہ کرنا، مال اور اولاد میں شیطان کو شریک کرنے میں داخل ہے کیونکہ حدیث میں وارد ہے کہ ان مذکورہ کاموں میں بسم اللہ نہ پڑھی جائے تو اس میں شیطان شریک ہوجاتا ہے۔ [صحيح بخاري، الأطعمة، باب التسمية..... الخ، حديث: 5376] ﴿وَعِدْهُمْ﴾ یعنی ان کے ساتھ سجا سجا کر جھوٹے وعدے کر جن کی کوئی حقیقت نہیں، بنا بریں فرمایا : ﴿وَمَا يَعِدُهُمُ الشَّيْطَانُ إِلَّا غُرُورًا ﴾ ” شیطان ان سے جو وعدہ کرتا ہے، وہ فریب ہوتا ہے“ یعنی شیطان ان کے ساتھ جو وعدہ کرتا ہے وہ محض جھوٹا اور انتہائی بودا ہوتا ہے، جیسے وہ ان کے سامنے معاصی اور عقائد فاسدہ کو سجا کر پیش کرتا ہے اور ان پر اجر کا وعدہ کرتا ہے، کیونکہ وہ اپنے آپ کو حق پر سمجھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿الشَّيْطَانُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَيَأْمُرُكُم بِالْفَحْشَاءِ ۖ وَاللّٰـهُ يَعِدُكُم مَّغْفِرَةً مِّنْهُ وَفَضْلًا ﴾ (البقرہ 2؍268) ” شیطان تمہیں تنگدستی سے ڈراتا ہے اور تمہیں فحش کام کا حکم دیتا ہے اور اللہ تمہیں اپنی طرف سے بخشش اور فضل عطا کرنے کا وعدہ کرتا ہے۔ “ یہ خبر دینے کے بعد کہ شیطان بندوں کے ساتھ کیا کرنا چاہتا ہے اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا کہ وہ کون سی چیز ہے جس کے ذریعے سے اس کے فتنے سے بچا جاسکتا ہے اور وہ ہے اللہ تعالیٰ کی عبودیت، ایمان پر قائم رہنا اور اللہ تعالیٰ پر توکل۔