سورة النحل - آیت 45

أَفَأَمِنَ الَّذِينَ مَكَرُوا السَّيِّئَاتِ أَن يَخْسِفَ اللَّهُ بِهِمُ الْأَرْضَ أَوْ يَأْتِيَهُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَيْثُ لَا يَشْعُرُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” تو کیا جن لوگوں نے بری تدبیریں کیں ہیں وہ اس سے بے خوف ہوگئے ہیں کہ اللہ انہیں زمین میں دھنسا دے یا ان پر وہاں سے عذاب آجائے کہ جہاں سے وہ سوچ سکتے نہ ہوں۔“ (٤٥) ”

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انکار کرنے والوں، جھٹلانے والوں اور گناہوں کا ارتکاب کرنے والوں کے لئے تخویف ہے کہ کہیں اللہ تعالیٰ کا عذاب انہیں غفلت میں نہ آ پکڑے اور انہیں شعور تک نہ ہو۔ یہ عذاب ان پر یا تو اوپر سے نازل ہو، یا نیچے سے پھوٹ پڑے، جیسے زمین میں دھنس جانے یا کسی اور صورت میں ظاہر ہو یا یہ عذاب ان پر اس وقت نازل ہو، جب وہ زمین پر چل پھر رہے ہوں اور اپنے کاروبار میں مصروف ہوں اور عذاب کا نازل ہونا ان کے خواب و خیال میں بھی نہ ہو یا اس حال میں ان پر عذاب نازل ہو کہ وہ عذاب سے خائف ہوں۔ پس وہ کسی بھی حالت میں اللہ تعالیٰ کو بے بس نہیں کرسکتے بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کے قبضہء قدرت میں ہیں اور ان کی پیشانیاں اس کے ہاتھ میں ہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ نہایت مہربان اور بہت رحیم ہے، وہ گناہ گاروں کو سزا دینے میں جلدی نہیں کرتا بلکہ وہ ان کو ڈھیل دیتا ہے اور ان کو معاف کردیتا ہے، وہ ان کو رزق سے نوازتا ہے اور ان کا حال یہ ہے کہ وہ اسے اور اس کے اولیاء کو ایذا پہنچاتے ہیں۔ بایں ہمہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے توبہ کے دروازے کھول رکھے ہیں، وہ انہیں گناہوں کو ختم کرنے کی دعوت دیتا ہے، جو ان کے لئے سخت ضرر رساں ہیں اللہ تعالیٰ انہیں اس کے بدلے میں بہترین اکرام و تکریم اور ان کے گناہوں کو بخش دینے کا وعدہ کرتا ہے۔۔۔۔۔ پس مجرم کو اپنے رب سے شرمانا چاہئے کہ اس کی نعمتیں ہر حال میں اس پر نازل ہوتی رہتی ہیں اور اس کے بدلے میں اس کی طرف سے ہر وقت نافرمانیاں اپنے رب کی طرف بلند ہوتی ہیں۔ اسے معلوم ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ڈھیل دیتا ہے مہمل نہیں چھوڑتا اور جب وہ گناہ گار نافرمان کو پکڑتا ہے تو اس کی پکڑ ایک غالب اور مقتدر ہستی کی پکڑ ہے۔ پس اسے توبہ کرنی چاہئے اور ہر معاملے میں اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ بس اس کی بے پایاں رحمت اس کے لامحدود احسان کے سائے کے نیچے آجاؤ اور جلدی سے اس راستے پر گامزن ہوجاؤ جو رب رحیم کے فضل و کرم کی منزل تک پہنچتا ہے اور یہ راستہ اللہ تعالیٰ کے تقویٰ اور اس کے محبوب اور پسندیدہ امور پر عمل کرنے سے عبارت ہے۔