سورة ابراھیم - آیت 11

قَالَتْ لَهُمْ رُسُلُهُمْ إِن نَّحْنُ إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يَمُنُّ عَلَىٰ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ۖ وَمَا كَانَ لَنَا أَن نَّأْتِيَكُم بِسُلْطَانٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ ۚ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” ان کے رسولوں نے کہا ہم نہیں ہیں مگر تمہارے جیسے بشر ہیں۔ لیکن اللہ احسان فرماتا ہے اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اور ہمارے لیے ممکن نہیں کہ تمہارے پاس کوئی دلیل اللہ کے اذ ن کے بغیر لے آئیں اور پس لازم ہے کہ ایمان والے اللہ پربھروسہ کریں۔“ (١١)

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿قَالَتْ لَهُمْ رُسُلُهُمْ ﴾ ان کے رسولوں نے ان کے مطالبے اور اعتراض کا جواب دیتے ہوئے فرمایا : ﴿إِن نَّحْنُ إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ﴾ ” ہم تمہارے ہی جیسے آدمی ہیں۔“ یعنی یہ صحیح اور حقیقت ہے کہ ہم تمہاری ہی طرح بشر ہیں ﴿وَلَـٰكِنَّ ﴾ مگر تمہارا یہ اعتراض اس حق کو باطل نہیں کرسکتا جسے ہم لے کر آئے ہیں، کیونکہ ﴿اللَّـهَ يَمُنُّ عَلَىٰ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ﴾ ” اللہ اپنے بندوں میں جس پر چاہتا ہے، احسان فرماتا ہے۔“ جب اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی وحی اور رسالت سے نواز دیا، تو یہ اس کا فضل و احسان ہے اور کسی کے بس میں نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کو روک سکے اور اس کو اس کی نوازشوں سے منع کرسکے۔ تم اس چیز میں غور کرو جو تمہارے پاس لے کر آئے ہیں اگر وہ حق ہے تو اسے قبول کرلو اور اگر وہ حق نہیں ہے تو بے شک اسے ٹھکرا دو۔ مگر ہم جو کچھ لے کر آئے اسے ٹھکرانے کے لئے ہمارے حال کو اپنے لئے دلیل نہ بناؤ اور تمہارا یہ کہنا ﴿فَأْتُونَا بِسُلْطَانٍ مُّبِينٍ﴾ ” کوئی واضح دلیل لے کر آؤ“ تو یہ چیز ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے اور ہمارے اختیار میں تو کچھ بھی نہیں۔ ﴿وَمَا كَانَ لَنَا أَن نَّأْتِيَكُم بِسُلْطَانٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّـهِ﴾ ” ہمارا کام نہیں کہ تمہارے پاس کوئی دلیل لے آئیں، مگر اللہ کی حکم سے“ یہ اللہ تعالیٰ ہی ہے اگر وہ چاہے تو تمہارے پاس معجزہ لے آئے اور اگر وہ نہ چاہے تو تمہارے پاس معجزہ نہ لائے، اور وہ جو کچھ بھی کرتا ہے اپنی حکمت اور رحمت کے تقاضے کے مطابق کرتا ہے۔ ﴿ وَعَلَى اللَّـهِ﴾ ” اللہ تعالیٰ ہی پر“ یعنی اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور پر نہیں ﴿فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ﴾ ” چاہیے کہ مومن بھروسہ کریں“ پس وہ اپنے مصالح کے حصول اور ضرر کو روکنے کے لئے اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسہ کرتے ہیں۔ کیونکہ انہیں علم ہے کہ اللہ تعالیٰ کفایت تامہ، قدرت کاملہ اور بے پایاں احسان کا مالک ہے۔ جلب مصالح اور دفع ضرر میں آسانی پیدا کرنے میں اہل ایمان اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہیں اور ان کا توکل ان کے ایمان کی مقدار کے مطابق ہوتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے توکل کا وجوب مستفاد ہوتا ہے نیز اس سے ثابت ہوتا ہے کہ توکل لوازمات ایمان اور بڑی بڑی عبادات میں شمار ہوتا ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کو محبوب اور جن پر اللہ تعالیٰ راضی ہے کیونکہ تمام عبادات توکل پر موقوف ہیں۔