سورة یوسف - آیت 87

يَا بَنِيَّ اذْهَبُوا فَتَحَسَّسُوا مِن يُوسُفَ وَأَخِيهِ وَلَا تَيْأَسُوا مِن رَّوْحِ اللَّهِ ۖ إِنَّهُ لَا يَيْأَسُ مِن رَّوْحِ اللَّهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْكَافِرُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اے میرے بیٹو ! جاؤ یوسف اور اس کے بھائی کو تلاش کرو اور اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی رحمت سے کافر ہی مایوس ہوتے ہیں۔“ (٨٧)

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

یعنی یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں سے کہا : ﴿يَا بَنِيَّ اذْهَبُوا فَتَحَسَّسُوا مِن يُوسُفَ وَأَخِيهِ﴾ ” اے بیٹو ! جاؤ اور تلاش کرو یوسف علیہ السلام اور اس کے بھائی کو“ یعنی پوری حرص اور کوشش کے ساتھ دونوں کو تلاش کرو۔ ﴿وَلَا تَيْأَسُوا مِن رَّوْحِ اللَّـهِ ۖ ﴾ ” اور اللہ کے فیض سے ناامید نہ ہو“ کیونکہ امید بندے کو اپنے مقصد کے لئے کوشش اور جدو جہد کے لئے آمادہ کرتی ہے اور مایوسی اسے سست اور کاہل بنا دیتی ہے اور سب سے بہترین چیز جس کے بندے کو امید رکھنی چاہیے وہ ہے اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم اور اس کی رحمت و مہربانی۔ ﴿لَا يَيْأَسُ مِن رَّوْحِ اللَّـهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْكَافِرُونَ﴾ ” اور اللہ کے فیض سے کافر ہی ناامیدہوتے ہیں۔“ کیونکہ کفار اپنے کفر کی وجہ سے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور سمجھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رحمت ان سے دور ہے، اس لئے کفار کی مشابہت اختیار نہ کرو۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ بندہ اپنے ایمان کے مطابق ہی اللہ تعالیٰ کی رحمت و مہربانی کی امید رکھتا ہے۔