وَلَمَّا فَتَحُوا مَتَاعَهُمْ وَجَدُوا بِضَاعَتَهُمْ رُدَّتْ إِلَيْهِمْ ۖ قَالُوا يَا أَبَانَا مَا نَبْغِي ۖ هَٰذِهِ بِضَاعَتُنَا رُدَّتْ إِلَيْنَا ۖ وَنَمِيرُ أَهْلَنَا وَنَحْفَظُ أَخَانَا وَنَزْدَادُ كَيْلَ بَعِيرٍ ۖ ذَٰلِكَ كَيْلٌ يَسِيرٌ
’ اور جب انہوں نے اپنا سامان کھولا تو اپنے مال کو پایا جو ان کو واپس کردیا گیا، کہنے لگے اے ہمارے باپ ! ہمیں کیا چاہیے ؟ یہ ہمارا مال ہمیں واپس کردیا گیا ہے اور ہم گھر والوں کے لیے غلہ لائیں گے اور اپنے بھائی کی حفاظت کریں گے اور ایک اونٹ کا ماپ زیادہ لائیں گے، یہ بہت تھوڑا ماپ ہے۔“ (٦٥)
﴿وَلَمَّا فَتَحُوا مَتَاعَهُمْ وَجَدُوا بِضَاعَتَهُمْ رُدَّتْ إِلَيْهِمْ ۖ ﴾ ” اور جب انہوں نے اپنا سامان کھولا تو انہوں نے پایا کہ ان کا مال بھی واپس کردیا گیا ہے۔“ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ انہیں معلوم تھا کہ یوسف علیہ السلام نے یہ مال قصداً واپس کیا تھا اور وہ اس مال کا واپس بھائیوں کو مالک بنانا چاہتے تھے۔ ﴿قَالُوا ﴾ انہوں نے بھائی کو ساتھ بھیجنے کے لئے ترغیب دیتے ہوئے باپ سے کہا : ﴿يَا أَبَانَا مَا نَبْغِي ﴾ ” ابا جان ! ہمیں)اور( کیا چاہیے۔“ یعنی اس بہترین اکرام و تکریم کے بعد ہمیں اور کیا چاہیے جب کہ بادشاہ نے ہمیں اناج پورا دیا ہے اور نہایت خوبصورت طریقے سے ہمارا مال بھی واپس لو ٹا دیا ہے اور یہ بات اخلاص اور مکارم اخلاق پر دلالت کرتی ہے۔ ﴿هَـٰذِهِ بِضَاعَتُنَا رُدَّتْ إِلَيْنَا ۖ وَنَمِيرُ أَهْلَنَا ﴾ ” یہ ہماری پونجی جو ہمیں واپس کردی گئی ہے، اب جائیں تو غلہ لے کر آئیں اپنے گھر والوں کے لیے‘‘ یعنی جب ہم اپنے بھائی کو ساتھ لے کر جائیں گے تو ہم اس کے حصے کا غلہ حاصل کرسکیں گے اور اپنے گھر والوں کے لئے غلہ لا سکیں گے، کیونکہ وہ خوراک کے سخت محتاج ہیں۔ ﴿وَنَحْفَظُ أَخَانَا وَنَزْدَادُ كَيْلَ بَعِيرٍ ﴾ ” اور ہم اپنے بھائی کی حفاطت کریں گے اور ایک اونٹ کی بھرتی بھی زیادہ لیں گے“ یعنی ہمارے بھائی کو ہمارے ساتھ بھیجنے کی وجہ سے ایک اونٹ کا بوجھ غلہ زیادہ ملے گا، کیونکہ ہر شخص کو ایک اونٹ کا بوجھ غلہ دیا جاتا تھا۔ ﴿ذَٰلِكَ كَيْلٌ يَسِيرٌ ﴾ ” اور وہ بھرتی آسان ہے۔“ یہ بڑا آسان سا کام ہے اس سے آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا، کیونکہ یہ کوئی زیادہ لمبی مدت نہیں اور اس میں جو مصلحت ہے وہ بھی آپ کے سامنے واضح ہے۔