وَقَالَ لِفِتْيَانِهِ اجْعَلُوا بِضَاعَتَهُمْ فِي رِحَالِهِمْ لَعَلَّهُمْ يَعْرِفُونَهَا إِذَا انقَلَبُوا إِلَىٰ أَهْلِهِمْ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ
اور اس نے اپنے جوا نوں سے کہا ان کا مال ان کے کجاووں میں رکھ دو، تاکہ جب وہ اپنے گھر والوں کی طرف واپس جائیں تو اسے پہچان لیں، شاید پھر آجائیں۔“ (٦٢)
﴿وَقَالَ ﴾ یوسف علیہ السلام نے فرمایا : ﴿لِفِتْيَانِهِ ﴾ ” اپنے خدام سے۔“ یعنی اپنے کارندوں سے جو ان کی خدمت میں موجود تھے۔ ﴿اجْعَلُوا بِضَاعَتَهُمْ ﴾ ” رکھ دوان کی پونجی“ یعنی وہ قیمت جس کے بدلے انہوں نے اناج خریدا تھا۔ ﴿ فِي رِحَالِهِمْ لَعَلَّهُمْ يَعْرِفُونَهَا ﴾ ”ان کے اسباب میں، شاید وہ اس کو پہچان لیں“ یعنی جب وہ اپنے مال کو جو انہوں نے قیمت کے طور پر ادا کیا تھا، واپس اپنے اپنے کجاووں میں دیکھیں گے ﴿لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ ﴾ ” شاید پھر یہاں آئیں۔“ یعنی شاید وہ اپنے مال کی واپسی کو گناہ سمجھتے ہوئے اسے لوٹانے کے لئے مصر واپس آئیں۔ ظاہر ہے یوسف علیہ السلام نے ان کے ساتھ پورے تول کے ذریعے سے نیکی کی تھی، پھر ان کی قیمت بھی ان کو اس طرح واپس لوٹا دی تھی کہ اس کی واپسی کا کوئی احسان نہیں انسان کے لئے دھڑ ٹھہراتا کہ محسن کے لئے پوری وفا داری کی جائے۔