خَتَمَ اللَّهُ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ وَعَلَىٰ سَمْعِهِمْ ۖ وَعَلَىٰ أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ
اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں اور ان کے کانوں پر مہر لگا دی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا ہے اور ان کے لیے عذاب عظیم ہوگا
﴿خَتَمَ اللَّـهُ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ وَعَلَىٰ سَمْعِهِمْ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر مہر لگا دی ہے، لہٰذا ایمان ان میں داخل نہیں ہوسکتا۔ پس وہ کسی فائدہ مند چیز کو یاد کرسکتے ہیں نہ کسی فائدہ مند چیز کو سن سکتے ہیں۔ ﴿وَعَلَىٰ أَبْصَارِهِمْ ﴾ یعنی ان کی آنکھوں کے سامنے پردہ ہے جو انہیں فائدہ مند چیزوں کو دیکھنے سے روکتا ہے۔ یہی وہ ذرائع ہیں جو علم اور بھلائی کے حصول میں استعمال ہوتے ہیں۔ ان ذرائع کو ان پر مسدود کردیا گیا ہے، لہٰذا ان سے کسی قسم کی توقع نہیں کی جاسکتی اور نہ ان سے کسی بھلائی کی امید کی جاسکتی ہے۔ ان پر ایمان کے دروازے صرف اس لئے بند کردیئے گئے کہ انہوں نے حق کے عیاں ہوجانے کے بعد بھی کفر، انکار اور عناد کا رویہ اختیار کئے رکھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَهُمْ وَأَبْصَارَهُمْ كَمَا لَمْ يُؤْمِنُوا بِهِ أَوَّلَ مَرَّةٍ﴾ (الانعام :110؍6) ” اور ہم ان کے دلوں اور آنکھوں کو الٹ دیں گے وہ اس قرآن پر اس طرح ایمان نہ لائیں گے جس طرح وہ پہلی بار ایمان نے لائے۔ “ یہ دنیاوی عذاب ہے۔ پھر آخرت کے عذاب کا ذکر کیا اور فرمایا : ﴿وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ﴾ ” اور ان کے لئے بہت بڑا عذاب ہے“ یہ جہنم کا عذاب اور اللہ جبار کی دائمی ناراضی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان منافقین کا ذکر فرمایا جو ظاہری طور پر مسلمان ہیں مگر ان کا باطن کفر سے لبریز ہے۔