فَإِن تَوَلَّيْتُمْ فَمَا سَأَلْتُكُم مِّنْ أَجْرٍ ۖ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ ۖ وَأُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ
” پھر اگر تم منہ موڑ لو تو میں نے تم سے کوئی اجر نہیں مانگا، میرا اجر تو اللہ کے سوا کسی کے ذمے نہیں اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں فرماں برداروں سے ہوں۔“
یہ نوح علیہ السلام کی رسالت کی صحت اور آپ کے دین کی صداقت کی قطعی دلیل اور بہت بڑی نشانی ہے، کیونکہ آپ تنہا تھے ان کا کوئی قبیلہ تھا جو آپ کی حمایت کرتا نہ آپ کے پاس کوئی فوج تھی جو آپ کی حفاظت کرتی۔ حضرت نوح علیہ السلام کی قوم نے اپنی حماقت انگیز آراء، فساد دین اور اپنے خود ساختہ معبودان کے عیوب کا پر چار کیا اور آپ کے ساتھ بغض اور عداوت کا مظاہرہ کیا جو پہاڑوں اور چٹانوں سے زیادہ سخت تھی وہ مشرکین قدرت اور سطوت رکھنے والے لوگ تھے۔ نوح علیہ السلام نے ان سے فرمایا ” تم، تمہارے گھڑے ہوے شریک اور جن کو تم بلانے کی استطاعت رکھتے ہو سب اکٹھے ہوجاؤ اور میرے خلاف جو چال تم چل سکتے ہو اگر قدرت رکھتے ہو تو چل کر دیکھ لو۔“ پس وہ کچھ بھی نہ کرسکے۔ تب معلوم ہوا کہ حضرت نوح علیہ السلام سچے، اور وہ اپنی دھمکیوں میں جھوٹھے تھے۔ اس لئے فرمایا : ﴿فَإِن تَوَلَّيْتُمْ﴾ ” پس اگر تم میری دعوت سے منہ موڑتے ہو“ اور اس کی کوئی وجہ نہیں، کیونکہ یہ بات تمہارے سامنے واضح ہوچکی ہے کہ تم باطل کو چھوڑ کر حق کی طرف نہیں آتے، بلکہ اس کے برعکس تم تو حق سے منہ موڑ کر باطل کی طرف جا رہے ہو جس کے فاسد ہونے پر دلائل قائم ہوچکے ہیں۔ بایں ہمہ ﴿ فَمَا سَأَلْتُكُم مِّنْ أَجْرٍ﴾ ” میں نے تم سے کچھ معاوضہ نہیں مانگا“ یعنی میں اپنی دعوت اور تمہاری لبیک پر تم سے کسی معاوضے کا مطالبہ نہیں کرتا تاکہ تم میرے بارے میں یہ نہ کہتے پھرو کہ یہ تو ہمارے مال ہتھیانے کے لیے آیا ہے اور اسی وجہ سے ہم اس کی دعوت قبول نہیں کرتے۔ ﴿إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّـهِ﴾ ” میرا معاوضہ تو اللہ کے ذمے ہے۔“ یعنی میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے ثواب اور اجر کا طلب گار نہیں۔ ﴿ وَ﴾ نیز میں تمہیں کسی ایسی بات کا حکم نہیں دیتا جس کی مخالفت کر کے اس کے متضاد بات پر عمل کروں، بلکہ ﴿أُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ﴾ ” مجھے حکم ہے کہ میں فرماں بردارہوں“ پس جن امور کا میں تمہیں حکم دیتا ہوں سب سے پہلے میں خود ان میں داخل ہوتا ہوں اور سب سے پہلے میں خود اس پر عمل کرتا ہوں۔