وَلَا عَلَى الَّذِينَ إِذَا مَا أَتَوْكَ لِتَحْمِلَهُمْ قُلْتَ لَا أَجِدُ مَا أَحْمِلُكُمْ عَلَيْهِ تَوَلَّوا وَّأَعْيُنُهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَنًا أَلَّا يَجِدُوا مَا يُنفِقُونَ
” اور نہ ان لوگوں پر کوئی گناہ ہے جو آپ کے پاس آئے ہیں تاکہ تو انہیں سواری دے تو آپ نے کہا کہ میں کوئی چیز نہیں پاتا جس پر تمہیں سوار کروں تو وہ اس حال میں واپس ہوئے کہ ان کی آنکھیں آنسوؤں سے بہہ رہی تھیں اس غم سے کہ وہ خرچ کرنے کے لیے کچھ نہیں پاتے۔“ (٩٢)
﴿وَلَا عَلَى الَّذِينَ إِذَا مَا أَتَوْكَ لِتَحْمِلَهُمْ ﴾ ” اور نہ ان پر کوئی حرج ہے کہ جب وہ آپ کے پاس آئیں، تاکہ آپ ان کو سواری دیں“ مگر انہوں نے آپ کے پاس کوئی چیز نہ پائی ﴿قُلْتَ ﴾ اور آپ نے ان سے معذرت کرتے ہوئے کہا : ﴿لَا أَجِدُ مَا أَحْمِلُكُمْ عَلَيْهِ تَوَلَّوا وَّأَعْيُنُهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَنًا أَلَّا يَجِدُوا مَا يُنفِقُونَ ﴾ ” میں کوئی ایسی چیز نہیں پاتا کہ میں تم کو اس پر سوار کراؤں، تو وہ الٹے پھرے اور ان کی آنکھوں سے آنسو بہتے تھے، اس غم میں کہ وہ خرچ کرنے کو کچھ نہیں پاتے“ کیونکہ وہ عاجز،بے بس اور اپنی جان کو خرچ کرنے والے ہیں۔ وہ انتہائی حزن و غم اور مشقت میں مبتلا ہیں جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے کردیا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے کوئی حرج اور گناہ نہیں، جب ان سے گناہ ساقط ہوگیا تو معاملہ اپنی اصل کی طرف لوٹ گیا یعنی جو کوئی بھلائی کی نیت کرتا ہے اور اس کی اس نیت جازمہ کے ساتھ مقدور بھر اس کی کوشش بھی مقرون ہوتی ہے، اس کے باوجود وہ اس فعل کو بجا لانے پر قادر نہیں ہوتا، تو اس کو فاعل کامل ہی شمار کیا جائے گا۔