وَقَالَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ لَوْلَا يُكَلِّمُنَا اللَّهُ أَوْ تَأْتِينَا آيَةٌ ۗ كَذَٰلِكَ قَالَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِم مِّثْلَ قَوْلِهِمْ ۘ تَشَابَهَتْ قُلُوبُهُمْ ۗ قَدْ بَيَّنَّا الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ
اور بے علم لوگوں نے مطالبہ کیا کہ اللہ تعالیٰ ہم سے کلام کیوں نہیں کرتا۔ یا ہمارے پاس کوئی نشانی کیوں نہیں آتی؟ اسی طرح ان سے پہلے لوگوں نے مطالبہ کیا تھا۔ ان کے اور ان کے دل یکساں ہوگئے ہیں بلا شبہ ہم نے یقین کرنے والوں کے لیے نشانیاں بیان کردی ہیں
یعنی اہل کتاب وغیرہ میں سے جہلاء نے کہا : ہمارے ساتھ اللہ تعالیٰ اس طرح کلام کیوں نہیں کرتا جس طرح وہ اپنے رسولوں سے کلام کرتا ہے۔ ﴿ اَوْ تَاْتِیْنَآ اٰیَۃٌ ۭ﴾” یا کیوں نہیں آتی ہمارے پاس کوئی نشانی“ اس سے مراد وہ نشانیاں ہیں جو وہ اپنی فاسد عقلوں اور باطل آراء کے ذریعے سے طلب کرتے تھے۔ ان فاسد آراء کے بل بوتے پر انہوں نے خالق کے مقابلے میں جسارت کی اور اس کے رسولوں کے سامنے تکبر سے کام لیا۔ جیسے انہوں نے کہا : ﴿لَن نُّؤْمِنَ لَكَ حَتَّىٰ نَرَى اللَّـهَ جَهْرَةً﴾ (البقرہ : 2؍ 55) ” ہم تجھ پر ہرگز ایمان نہ لائیں گے جب تک ہم اللہ کو ان ظاہری آنکھوں سے نہ دیکھ لیں۔“ ﴿ يَسْأَلُكَ أَهْلُ الْكِتَابِ أَن تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتَابًا مِّنَ السَّمَاءِ ۚ فَقَدْ سَأَلُوا مُوسَىٰ أَكْبَرَ مِن ذَٰلِكَ ﴾(النساء 4؍ 153) ” اہل کتاب تجھ سے کہتے ہیں کہ تو ان پر آسمان سے ایک لکھی ہوئی کتاب اتارلا۔ پس یہ موسیٰ سے اس سے بھی بڑے بڑے سوال کیا کرتے تھے۔“﴿ لَوْلَا أُنزِلَ إِلَيْهِ مَلَكٌ فَيَكُونَ مَعَهُ نَذِيرًا أَوْ يُلْقَىٰ إِلَيْهِ كَنزٌ أَوْ تَكُونُ لَهُ جَنَّةٌ يَأْكُلُ مِنْهَا﴾ (الفرقان: 25؍ 7، 8) ” اس کی طرف کوئی فرشتہ کیوں نہ نازل کیا گیا جو ڈرانے کے لیے اس کے ساتھ ساتھ رہتا یا اس کی طرف کوئی خزانہ اتارا جاتا۔ یا اس کے لیے کوئی باغ ہوتا جس سے وہ کھاتا“ یا جیسے فرمایا :﴿ وَقَالُوا لَن نُّؤْمِنَ لَكَ حَتَّىٰ تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْأَرْضِ يَنبُوعًا﴾ (بنی اسرائیل: 17؍ 90) ” اور انہوں نے کہا ہم تجھ پر اس وقت تک ایمان نہیں لائیں گے جب تک کہ تو ہمارے لیے زمین سے چشمہ جاری نہ کردے۔ “ پس اپنے رسولوں کے ساتھ یہ ان کی عادت رہی ہے کہ یہ طلب رشد و ہدایت کے لیے آیات کا مطالبہ نہیں کیا کرتے تھے اور نہ تبیین حق ان کا مقصد تھا بلکہ وہ تو محض بال کی کھال اتارنے کے لیے مطالبات کرتے تھے۔ کیونکہ رسول تو آیات (اور معجزات) کے ساتھ آتے رہے ہیں اور ان جیسی آیات و معجزات پر انسان ایمان لاتا رہا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿ قَدْ بَیَّنَّا الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ﴾” بے شک ہم نے بیان کردیں نشانیاں ان لوگوں کے لیے جو یقین کرتے ہیں“ پس ہر صاحب ایقان اللہ تعالیٰ کی روشن نشانیوں اور واضح دلائل و براہین کو پہچان لیتا ہے۔ ان سے اسے یقین حاصل ہوتا ہے اور شک و ریب اس سے دور ہوجاتے ہیں۔