سورة التوبہ - آیت 12

وَإِن نَّكَثُوا أَيْمَانَهُم مِّن بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَطَعَنُوا فِي دِينِكُمْ فَقَاتِلُوا أَئِمَّةَ الْكُفْرِ ۙ إِنَّهُمْ لَا أَيْمَانَ لَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَنتَهُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اور اگر وہ عہد کے بعد اپنی قسمیں توڑدیں اور تمہارے دین میں طعن کریں تو کفر کے پیشواؤں سے جنگ کرو بے شک ان لوگوں کی قسموں کا کوئی اعتبار نہیں ہے تاکہ وہ باز آجائیں۔“ (١٢)

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اس بات کا ذکر کرنے کے بعد اگر مشرک معاہدین اپنے عہد پر قائم رہتے ہیں تو تم بھی اپنے عہد پر قائم رہتے ہوئے ان سے اپنے عہد کو پورا کرو۔۔۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَإِن نَّكَثُوا أَيْمَانَهُم مِّن بَعْدِ عَهْدِهِمْ﴾ ” اور اگر عہد کرنے کے بعد اپنی قسموں کو توڑ ڈالیں“ یعنی انہوں نے اپنے حلف کو توڑ دیا اور جنگ میں تمہارے خلاف دشمن کی مدد کی یا تمہیں نقصان پہنچایا ﴿وَطَعَنُوا فِي دِينِكُمْ﴾ ” اور تمہارے دین میں طعن کرنے لگیں“ یعنی تمہارے دین میں عیب چینی کی یا اس کا تمسخر اڑایا۔ یہ دین اور قرآن میں ہر قسم کے طعن و تشنیع کو شامل ہے۔ ﴿فَقَاتِلُوا أَئِمَّةَ الْكُفْرِ﴾ ’’تو ان کفر کے پیشواؤں سے جنگ کرو۔“ یعنی قائدین کفر اور ان سرداروں سے لڑو جو اللہ رحمٰن کے دین میں طعن و تشنیع کرتے ہیں اور شیطان کے دین کی مدد کرتے ہیں۔ ان قائدین کفر کا خاص طور پر ذکر اس لئے کیا ہے کیونکہ ان کا جرم بہت بڑا تھا اور دیگر لوگ تو محض ان کے پیرو کار تھے اور تاکہ یہ اس بات کی دلیل ہو کہ جو کوئی دین میں طعن و تشنیع کا مرتکب ہوتا ہے اور اس کو ٹھکرانے کے در پے ہوتا ہے تو اس کا شمار ائمہ کفر میں ہوتا ہے۔ ﴿إِنَّهُمْ لَا أَيْمَانَ لَهُمْ﴾ یعنی ان کا کوئی عہد و میثاق نہیں کہ وہ اس کے ایفا کا التزام کریں بلکہ وہ تو ہمیشہ خیانت کرتے رہتے ہیں اور عہد کو توڑتے رہتے ہیں۔ ان پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔ ﴿ لَعَلَّهُمْ﴾” شاید کہ وہ“ یعنی ان کے ساتھ تمہارے لڑائی کرنے میں ﴿يَنتَهُونَ﴾ ” باز آجائیں۔“ یعنی تمہارے دین میں طعن کرنے سے باز آجائیں اور بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ دین میں داخل ہوجائیں۔