وَإِلَىٰ ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا ۗ قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرُهُ ۖ قَدْ جَاءَتْكُم بَيِّنَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ ۖ هَٰذِهِ نَاقَةُ اللَّهِ لَكُمْ آيَةً ۖ فَذَرُوهَا تَأْكُلْ فِي أَرْضِ اللَّهِ ۖ وَلَا تَمَسُّوهَا بِسُوءٍ فَيَأْخُذَكُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
” اور ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا اس نے کہا اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔ بے شک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک واضح دلیل آچکی۔ یہ اللہ کی اونٹنی تمہارے لیے ایک نشانی کے طور پر ہے پس اسے چھوڑدو کہ اللہ کی زمین میں کھاتی پھرے اور اسے برے ارادے سے ہاتھ نہ لگانا، ورنہ تمہیں ایک دردناک عذاب پکڑ لے گا۔ (٧٣)
﴿ وَإِلَىٰ ثَمُودَ﴾ ” اور ثمود کی طرف“ ثمود قدیم عربوں کا معروف قبیلہ تھا جو جزیرۃ العرب اور ارض حجاز میں حجر اور اس کے اردگرد کے علاقوں میں آباد تھا ﴿أَخَاهُمْ صَالِحًا﴾ اللہ تعالیٰ نے صالح علیہ السلام کو نبی بنا کر ان کی طرف مبعوث کیا جو انہیں توحید اور ایمان کی دعوت دیتے تھے اور انہیں شرک اور اللہ تعالیٰ کے ہمسر گھڑنے سے روکتے تھے۔﴿قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّـهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَـٰهٍ غَيْرُهُ﴾” انہوں نے کہا : اے میری قوم ! اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔“ صالح کی دعوت بھی وہی تھی جو ان کے بھائی دیگر انبیا و مرسلین کی دعوت تھی یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حکم دینا اور یہ واضح کردینا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا بندوں کا کوئی الٰہ نہیں﴿قَدْ جَاءَتْكُم بَيِّنَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ﴾ ” تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک معجزہ آچکا ہے۔“ یعنی ایک خارق عادت دلیل تمہارے پاس آگئی ہے جو آسمانی معجزہ ہے اور انسان اس قسم کی نشانی پیش کرنے پر قادر نہیں۔ پھر اس کی تفسیر بیان کرتے فرمایا : ﴿هَـٰذِهِ نَاقَةُ اللَّـهِ لَكُمْ آيَةً﴾ ” یہی اللہ کی اونٹنی تمہارے لئے معجزہ ہے۔“ یہ شرف و فضل کی حامل اونٹنی ہے کیونکہ اللہ کی طرف اس کی اضافت اس کے شرف کی باعث ہے اور اس میں تمہارے لئے ایک عظیم نشانی ہے۔ صالح علیہ السلام نے اس اونٹنی کے معجزہ ہونے کی وجہ بیان فرمائی : ﴿لَّهَا شِرْبٌ وَلَكُمْ شِرْبُ يَوْمٍ مَّعْلُومٍ﴾ (الشعراء :26؍ 155) ” ایک دن اس کے پانی پینے کی باری ہے اور ایک مقررہ دن تمہارے پانی پینے کی باری ہے“ ان کے ہاں ایک بہت بڑا کنواں تھا جو ” اونٹنی والا کنواں“ کے نام سے معروف تھا۔ اسی کنوئیں سے وہ اور اونٹنی اپنی اپنی باری کے مطابق پانی پیتے تھے۔ ایک دن اونٹنی کے پانی پینے کے لئے مقرر تھا۔ وہ اس اونٹنی کے تھنوں سے دودھ پیتے تھے۔ ایک دن لوگوں کے لئے مقرر تھا، اس دن وہ کنوئیں پر پانی لینے کی غرض سے آتے، تو اونٹنی وہاں سے چلی جاتی۔ ان کے نبی صالح علیہ السلام نے ان سے کہا : ﴿فَذَرُوهَا تَأْكُلْ فِي أَرْضِ اللَّـهِ ﴾ ” پس اس کو چھوڑ دو کہ کھائے اللہ کی زمین میں“ تم پر اس اونٹنی کا کچھ بھی بوجھ اور ذمہ داری نہیں ﴿وَلَا تَمَسُّوهَا بِسُوءٍ ﴾ اور نہ ہاتھ لگاؤ اس کو بری طرح“ یعنی اس کی کونچیں وغیرہ کاٹنے کی نیت سے اسے مت چھونا ﴿ فَيَأْخُذَكُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴾ ” ورنہ تمہیں ایک درد ناک عذاب آ لے گا۔ “