قَالَ الْمَلَأُ مِن قَوْمِهِ إِنَّا لَنَرَاكَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ
اس کی قوم کے سرداروں نے کہا بے شک ہم تجھے کھلی گمراہی میں دیکھ رہے ہیں۔ (٦٠)
جب نوح علیہ السلام نے ان سے یہ بات کہی تو انہوں نے حضرت نوح علیہ السلام کو بدترین جواب دیا : ﴿قَالَ الْمَلَأُ مِن قَوْمِهِ﴾” ان کی قوم کے سرداروں نے کہا۔“ یعنی سرداروں اور دولت مند راہنماؤں نے کہا، حق کے سامنے تکبر کرنا اور انبیاء و مرسلین کی اطاعت نہ کرنا، ہمیشہ سے ان کی عادت رہی ہے۔ ﴿إِنَّا لَنَرَاكَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ﴾ ” ہم دیکھتے ہیں تجھ کو صریح بہکا ہوا“ انہوں نے اسی پر بس نہیں کی۔ اللہ تعالیٰ ان کا برا کرے کہ انہوں نے انبیا و رسل کی اطاعت نہیں کی بلکہ وہ جناب نوح سے تکبر کے ساتھ پیش آئے اور ان کی عیب چینی کی اور ان کو گمراہی سے منسوب کیا پھر انہوں نے آں جناب کو مجرد گمراہ کہنے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ ایسی گمراہی سے منسوب کیا جو ہر ایک پر واضح ہوتی ہے۔ یہ انکار حق اور عناد کی بدترین قسم ہے جو کمزور لوگوں میں عقل و فہم نہیں چھوڑتی یہ وصف تو قوم نوح پر منطبق ہوتا ہے جو بتوں کو خدا مانتے ہیں جن کو انہوں نے خود اپنے ہاتھوں سے پتھروں کو تراش کر بنایا ہے۔ جو سن سکتے ہیں نہ دیکھ سکتے ہیں اور نہ ان کے کسی کام آسکتے ہیں۔ انہوں نے ان خداؤں کو وہی مقام دے دیا جو اس کائنات کو پیدا کرنے والے کا مقام ہے اور ان کے تقرب کے حصول کی خاطر مختلف عبادات ان کے لئے مقرر کردیں۔ اگر ان کا ذہن نہ ہوتا جس کی وجہ سے ان پر اللہ تعالیٰ کی حجت قائم ہوتی ہے تو ان کے بارے میں یہی فیصلہ ہوتا کہ فاتر العقل لوگ ان سے زیادہ ہدایت یافتہ ہیں بلکہ ان سے زیادہ عقل مند ہیں۔