فَوَسْوَسَ لَهُمَا الشَّيْطَانُ لِيُبْدِيَ لَهُمَا مَا وُورِيَ عَنْهُمَا مِن سَوْآتِهِمَا وَقَالَ مَا نَهَاكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ هَٰذِهِ الشَّجَرَةِ إِلَّا أَن تَكُونَا مَلَكَيْنِ أَوْ تَكُونَا مِنَ الْخَالِدِينَ
” پھر شیطان نے ان دونوں کے دل میں وسوسہ ڈالا۔ تاکہ ان کے لیے ظاہر کر دے جو ان سے چھپائی گئی تھیں یعنی ان کی شرمگاہیں اور کہا تم دونوں کے رب نے تمہیں اس درخت سے منع نہیں کیا مگر اس لیے کہ کہیں تم دونوں فرشتے بن جاؤ یا ہمیشہ رہنے والوں میں سے ہوجاؤ۔
* ”وَسْوَسَةٌ“ اور وِسْوَاسٌ، زَلْزَلَةٌ اور زِلْزَالٌ کے وزن پر ہے۔ پست آواز اور نفس کی بات۔ شیطان دل میں جو بری باتیں ڈالتا ہے، اس کو وسوسہ کہا جاتا ہے۔ ** یعنی شیطان کا مقصد اس بہکاوﮮ سے حضرت آدم وحوا کو اس لباس جنت سے محروم کرکے انہیں شرمندہ کرنا تھا، جو انہیں جنت میں پہننے کے لئے دیا گیا تھا ”سَوْآتٌ“ سَوْءَةٌ (شرم گاہ) کی جمع ہے. شرم گاہ کوسَوْءَةٌ سے اس لئے تعبیر کیا گیا ہے کہ اس کے ظاہر ہونے کو برا سمجھا جاتا ہے۔