سورة الانعام - آیت 97

وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُوا بِهَا فِي ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ۗ قَدْ فَصَّلْنَا الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اور وہی ہے جس نے تمہارے لیے ستارے بنائے تاکہ تم ان کے ساتھ خشکی اور سمندر کے اندھیروں میں راستہ معلوم کرو۔ بے شک ہم نے ان لوگوں کے لیے کھول کر آیات بیان کردی ہیں جو جانتے ہیں۔“ (٩٧)

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- ستاروں کا یہاں یہ ایک اور فائدہ اور مقصد بیان کیا گیا ہے، ان کے دو مقصد اور ہیں جو دوسرے مقام پر بیان کئے گئے ہیں۔ آسمانوں کی زینت اور شیطانوں کی مرمت۔ رُجُومًا للشَّيَاطِينِ۔ یعنی شیطان آسمان پر جانے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ ان پر شعلہ بن کر گرتے ہیں۔ بعض سلف کا قول ہے ”مَن اعْتَقَدَ فِي هَذِهِ النُّجُومِ غَيْرَ ثَلاثِ، فقد أَخْطَأَ وكَذَبَ عَلَى اللهِ“ ان تین باتوں کے علاوہ ان ستاروں کے بارےمیں اگر کوئی شخص کوئی اور عقیدہ رکھتا ہے تو وہ غلطی پر ہے اور اللہ پر جھوٹ باندھتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا ہے کہ ہمارے ملک میں جو علم نجوم کا چرچا ہے جس میں ستاروں کے ذریعے سے مستقبل کے حالات اور انسانی زندگی یا کائنات میں ان کے اثرات بتانے کا دعویٰ کیا جاتا ہے، وہ بے بنیاد بھی ہے اور شریعت کے خلاف بھی۔ چنانچہ ایک حدیث میں اسے جادو ہی کا ایک شعبہ (حصہ) بتلایا گیا ہے۔ [ مَنِ اقْتَبَسَ عِلْمَاً مِنَ النُّجُومِ اقْتَبَسَ شُعْبَةً مِنَ السِّحْرِ زَادَ مَا زَادَ ] (حسنه الألباني صحيح أبي داود رقم 3905)