سورة الانعام - آیت 93

وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا أَوْ قَالَ أُوحِيَ إِلَيَّ وَلَمْ يُوحَ إِلَيْهِ شَيْءٌ وَمَن قَالَ سَأُنزِلُ مِثْلَ مَا أَنزَلَ اللَّهُ ۗ وَلَوْ تَرَىٰ إِذِ الظَّالِمُونَ فِي غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَالْمَلَائِكَةُ بَاسِطُو أَيْدِيهِمْ أَخْرِجُوا أَنفُسَكُمُ ۖ الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ بِمَا كُنتُمْ تَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ غَيْرَ الْحَقِّ وَكُنتُمْ عَنْ آيَاتِهِ تَسْتَكْبِرُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اور اس سے بڑا ظالم کون ہے جو اللہ پر جھوٹ باندھے یا کہے میری طرف وحی کی گئی ہے؟ حالانکہ اس کی طرف کچھ بھی وحی نہیں کیا گیا اور جو کہے میں بھی ضرور اس جیسانازل کروں گا جو اللہ نے نازل کیا اور کاش ! آپ دیکھیں جب ظالم لوگ موت کی سختیوں میں ہوتے ہیں اور فرشتے اپنے ہاتھ پھیلائے ہوئے کہتے ہیں کہ نکالو اپنی جانیں آج تمہیں ذلت کا عذاب اس لیے دیا جائے گا کہ تم اللہ کے بارے میں ناحق باتیں کہتے تھے اور اس کی آیات سے تکبر کرتے تھے۔“ (٩٣)

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- ظالم سے مراد ہر ظالم ہے اور اس میں کتاب الٰہی کا انکار کرنے والے اور جھوٹے مدعیان نبوت سب سے پہلے شامل ہیں۔ غَمَرَاتٌ سے موت کی سختیاں مراد ہیں۔ ”فرشتے ہاتھ بڑھا رہے ہوں گے“ یعنی جان نکالنے کے لئے۔ الْيَوْمَ) سے مراد قبض روح کا دن ہے اور یہی عذاب کے آغاز کا وقت بھی ہے جس کا مبدا قبر ہے۔ اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عذاب قبر برحق ہے۔ ورنہ ہاتھ پھیلانے اور جان نکالنے کا حکم دینے کے ساتھ اس بات کے کہنے کے کوئی معنی نہیں کہ آ تمہیں ذلت کا عذاب دیا جائے گا۔ خیال رہے قبر سے مراد برزخ کی زندگی ہے۔ یعنی دنیا کی زندگی کے بعد اور آخرت کی زندگی سے قبل، یہ ایک درمیان کی زندگی ہے جس کا عرصہ انسان کی موت سے قیامت کے وقوع تک ہے۔ یہ برزخی زندگی کہلاتی ہے . چاہے اسے کسی درندے نے کھا لیا ہو، اس کی لاش سمندر کی موجوں کی نذر ہوگئی ہو یا اسے جلا کر راکھ بنا دیا گیا یا قبر میں دفنا دیا گیا ہو۔ یہ برزخ کی زندگی ہے جس میں عذاب دینے پر اللہ تعالیٰ قادر ہے۔ 2- اللہ کے ذمے جھوٹی باتیں لگانے میں انزال کتب اور ارسال رسل کا انکار بھی ہے اور جھوٹا دعوائے نبوت بھی ہے۔ اسی طرح نبوت ورسالت کا انکار واستکبار ہے۔ ان دونوں وجوہ سے انہیں ذلت ورسوائی کا عذاب دیا جائے گا۔