سورة المآئدہ - آیت 103

مَا جَعَلَ اللَّهُ مِن بَحِيرَةٍ وَلَا سَائِبَةٍ وَلَا وَصِيلَةٍ وَلَا حَامٍ ۙ وَلَٰكِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ ۖ وَأَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اللہ نے نہ کوئی بحیرہ مقرر فرمائی ہے اور نہ کوئی سائبہ اور نہ وصیلہ اور حام اور لیکن وہ لوگ جو کافر ہیں اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں اور ان میں سے اکثر نہیں سمجھتے۔“ (١٠٣)

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- یہ ان جانوروں کی قسمیں ہیں جو اہل عرب اپنے بتوں کی نذر کر دیا کرتے تھے۔ ان کی مختلف تفسیریں کی گئی ہیں۔ حضرت سعید بن مسیب (رحمۃ اللہ علیہ) سے صحیح بخاری میں اس کی تفسیر حسب ذیل نقل کی گئی ہے۔”بَحِيرَةٍ“: وہ جانور، جس کا دودھ دوہنا چھوڑ دیا جاتا اور کہا جاتا کہ یہ بتوں کے لئے ہے۔ چنانچہ کوئی شخص اس کے تھنوں کو ہاتھ نہ لگاتا۔ ”سَآئِبَة“: وہ جانور، جسے وہ بتوں کے لئے آزاد چھوڑ دیتے تھے، اسے نہ سواری کے لئے استعمال کرتے نہ باربرداری کے لئے۔ ”وَصِيلَةٍ“: وہ اونٹنی، جس سے پہلی مرتبہ مادہ پیدا ہوتی اور اس کے بعد پھر دوبارہ بھی مادہ ہی پیدا ہوتی۔ (یعنی ایک مادہ کے بعد دوسری مادہ مل گئی، ان کے درمیان کسی نر سے تفریق نہیں ہوئی) ایسی اونٹنی کو بھی وہ بتوں کے لئے آزاد چھوڑ دیتے تھے اور ”حَامٍ“: وہ نر اونٹ، جس کی نسل سے کئی بچے ہوچکے ہوتے۔ (اور نسل کافی بڑھ جاتی) تو اس سے بھی باربرداری یا سواری کا کام نہ لیتے اور بتوں کے لئے چھوڑ دیتے اور اسے وہ حامی کہتے۔ اسی روایت میں یہ حدیث بھی بیان کی گئی ہے کہ سب سے پہلے بتوں کے جانور آزاد چھوڑنے والا شخص عمروبن عامر خزاعی تھا۔ نبی (ﷺ) فرماتے ہیں کہ میں نے اسے جہنم میں انتڑیاں کھینچتے ہوئے دیکھا (صحیح بخاری- تفسير سورة المائدة) آیت میں کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان جانوروں کو اس طرح مشروع نہیں کیا ہے، کیونکہ اس نے تو نذر ونیاز صرف اپنے لئے خاص کر رکھی ہے۔ بتوں کے لئے نذرونیاز کے طریقے مشرکوں نے ایجاد کئے ہیں اور بتوں اور معبودان باطل کے نام پر جانور چھوڑنے اور نذر نیاز پیش کرنے کا یہ سلسلہ آج بھی مشرکوں میں بلکہ بہت سے نام نہاد مسلمانوں میں بھی قائم و جاری ہے۔ أَعَاذَنَا اللهُ مِنْهُ۔