سورة المآئدہ - آیت 89

لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَٰكِن يُؤَاخِذُكُم بِمَا عَقَّدتُّمُ الْأَيْمَانَ ۖ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ ۖ فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ ۚ ذَٰلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمَانِكُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ ۚ وَاحْفَظُوا أَيْمَانَكُمْ ۚ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اللہ تمہاری لغو قسموں پر مؤاخذہ نہیں کرتا۔ لیکن تمھارا اس پر مؤاخذہ کرتا ہے جو تم نے پختہ ارادے سے قسمیں کھائیں۔ تو اس کا کفارہ درمیانے درجے کا دس مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے جو تم اپنے گھروالوں کو کھلاتے ہو یا انہیں کپڑے پہنانا، یا ایک گردن آزاد کرنا، جو یہ نہ پائے تو تین دن روزے رکھنا ہے یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب تم قسم کھالو اور اپنی قسموں کی حفاظت کرواسی طرح اللہ تمہارے لیے اپنی آیات کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ تم شکرادا کرو۔“ (٨٩)

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- قَسَمٌ جس کو عربی میں حَلْفٌ یا يَمِينٌ کہتے ہیں جن کی جمع أَحْلافٌ اور ایمان ہے، تین قسم کی ہیں۔ لَغْوٌ، غَمُوسٌ اور مُعَقَّدَةٌ، لَغْوٌ: وہ قسم ہے جو انسان بات بات میں عادتًا بغیر ارادہ اور نیت کے کھاتا رہتا ہے۔ اس پر کوئی مواخذہ نہیں۔ غَمُوسٌ: وہ جھوٹی قسم ہے جو انسان دھوکہ اور فریب دینے کے لئے کھائے۔ یہ کبیرہ گناہ بلکہ اکبر الکبائر ہے۔ لیکن اس پر کفارہ نہیں۔ مُعَقَّدَةٌ: وہ قسم ہے جو انسان اپنی بات میں تاکید اور پختگی کے لئے ارادۃً اورنیتہً کھائے ایسی قسم اگر توڑے گا تو اس کا وہ کفارہ ہے جو آگے آیت میں بیان کیا جا رہا ہے۔ 2- اس کھانے کی مقدار میں کوئی صحیح روایت نہیں ہے، اس لئے اختلاف ہے۔ البتہ امام شافعی نے اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے، جس میں رمضان میں روزے کی حالت میں بیوی سے ہم بستری کرنے والے کے کفارہ کا ذکر ہے، ایک مد (تقریباً 10/ چھٹانک) فی مسکین خوراک قرار دی ہے۔ کیونکہ نبی (ﷺ) نے اس شخص کو کفارۂ جماع ادا کرنے کے لئے 15 صاع کھجوریں دی تھیں، جنہیں ساٹھ مسکینوں پر تقسیم کرنا تھا۔ ایک صاع میں 4 مد ہوتے ہیں۔ اس اعتبار سے بغیر سالن کے دس مسکینوں کے لئے دس مد (یعنی سوا چھ سیر یا چھ کلو) خوراک کفارہ ہوگی۔ (ابن کثیر ) 3- لباس کے بارے میں بھی اختلاف ہے۔ بظاہر مراد جوڑا ہے جس میں انسان نماز پڑھ سکے۔ بعض علماء خوراک اور لباس دونوں کے لئے عرف کو معتبر قرار دیتے ہیں۔ (حاشیہ ابن کثیر، تحت آیت زیر بحث ) 4- بعض علماء قتل خطا کی دیت پر قیاس کرتے ہوئے لونڈی، غلام کے لئے ایمان کی شرط عائد کرتے ہیں۔ امام شوکانی کہتے ہیں، آیت میں عموم ہے مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے۔ 5- یعنی جس کو مذکورہ تینوں چیزوں میں سے کسی کی طاقت نہ ہو تو وہ تین دن کے روزے رکھے، یہ روزے اس کی قسم کا کفارہ ہو جائیں گے۔ بعض علماء پےدرپے روزے رکھنے کے قائل ہیں اور بعض کے نزدیک دونوں طرح جائز ہیں۔