الْيَوْمَ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ ۖ وَطَعَامُ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حِلٌّ لَّكُمْ وَطَعَامُكُمْ حِلٌّ لَّهُمْ ۖ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ إِذَا آتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ مُحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ وَلَا مُتَّخِذِي أَخْدَانٍ ۗ وَمَن يَكْفُرْ بِالْإِيمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ
” آج تمہارے لیے پاک چیزیں حلال کردی گئیں اور ان لوگوں کا کھانا تمہارے لیے حلال ہے جنہیں کتاب دی گئی اور تمہارا کھانا ان کے لیے حلال ہے اور ایمان والیوں میں سے پاک دامن عورتیں اور ان لوگوں کی پاک دامن عورتیں جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی، جب تم انہیں ان کے مہر دے دو۔ عقد نکاح میں لانے والے، نہ مستی نکالنے والے اور نہ چھپی آشنایاں بنانے والے اور جو ایمان کا انکار کرے تو یقیناً اس کا عمل ضائع ہوگیا اور وہ آخرت میں نقصان پانے والوں سے ہے۔“
* اہل کتاب کا وہی ذبیحہ حلال ہوگا جس میں خون بہہ گیا ہو۔ گویا ان کا مشینی ذبیحہ حلال نہیں ہے، کیونکہ اس میں خون بہنے کی ایک بنیادی شرط مفقود ہے۔ ** اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح کی اجازت کے ساتھ ایک تو پاکدامن کی قید ہے، جو آج کل اکثر اہل کتاب کی عورتوں میں مفقود ہے۔ دوسرے، اس کے بعد فرمایا گیا جو ایمان کے ساتھ کفر کرے، اس کے عمل برباد ہوگئے۔ اس سے یہ تنبیہ مقصود ہے کہ اگر ایسی عورت سے نکاح کرنے میں ایمان کے ضیاع کا اندیشہ ہو تو بہت ہی خسارہ کا سودا ہوگا اور آج کل اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح میں ایمان کو جو شدید خطرات لاحق ہوتے ہیں، محتاج وضاحت نہیں۔ درآں حالیکہ ایمان کو بچانا فرض ہے۔ ایک جائز کام کے لئے فرض کو خطرے میں نہیں ڈالا جاسکتا۔ اس لئے اس کا جواز بھی اس وقت تک ناقابل عمل رہے گا، جب تک مذکورہ دونوں چیزیں مفقود نہ ہوجائیں۔ علاوہ ازیں آج کل کے اہل کتاب ویسے بھی اپنے دین سے بالکل ہی بیگانہ بلکہ بیزار اور باغی ہیں۔ اس حالت میں کیا وہ واقعی اہل کتاب میں شمار بھی ہوسکتے ہیں؟ واللہ اعلم۔