سورة المنافقون - آیت 7

هُمُ الَّذِينَ يَقُولُونَ لَا تُنفِقُوا عَلَىٰ مَنْ عِندَ رَسُولِ اللَّهِ حَتَّىٰ يَنفَضُّوا ۗ وَلِلَّهِ خَزَائِنُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلَٰكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَفْقَهُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

یہ وہی لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ رسول کے ساتھیوں پر خرچ نہ کرو تاکہ یہ منتشر ہوجائیں، حالانکہ اللہ ہی زمین و آسمانوں کے خزانوں کا مالک ہے۔ مگر منافق نہیں سمجھتے ہیں

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- ایک غزوے میں (جسے اہل سیر غزوۂ مریسیع یا غزوۂ بنی المصطلق کہتے ہیں) ایک مہاجر اور ایک انصاری کا جھگڑا ہوگیا، دونوں نے اپنی اپنی حمایت کے لیے انصار اور مہاجرین کو پکارا، جس پر عبداللہ بن ابی (منافق) نے انصار سے کہا کہ تم نے مہاجرین کی مدد کی اور اور ان کو اپنے ساتھ رکھا، اب دیکھ لو، اس کا نتیجہ سامنے آرہا ہے یعنی یہ اب تمہارا کھا کر تمہیں پر غرا رہے ہیں۔ ان کا علاج تو یہ ہے کہ ان پر خرچ کرنا بند کر دو، یہ اپنے آپ تتر بتر ہو جائیں گے۔ نیز اس نے یہ بھی کہا کہ ہم (جو عزت والے ہیں) ان ذلیلوں (مہاجروں) کو مدینے سے نکال دیں گے۔ حضرت زید بن ارقم (رضی الله عنہ) نے یہ کلمات خبیثہ سن لیے اور انہوں نے رسول اللہ (ﷺ) کو آکر بتلایا، آپ (ﷺ) نے عبداللہ بن ابی کو بلا کر پوچھا تو اس نے صاف انکار کر دیا۔ جس پر حضرت زید بن ارقم (رضی الله عنہ) ، کو سخت ملال ہوا، اللہ تعالیٰ نے حضرت زید بن ارقم (رضی الله عنہ) ، کی صداقت کے اظہار کے لیے سورۂ منافقون نازل فرما دی، جس میں ابن ابی کے کردار کو پوری طرح طشت ازبام کر دیا گیا۔ (صحيح البخاری، تفسير سورة المنافقين 2- مطلب یہ ہے کہ مہاجرین کا رازق اللہ تعالیٰ ہے اس لیے کہ رزق کے خزانے اسی کے پاس ہیں، وہ جس کو جتنا چاہے دے اور جس سے چاہے روک لے۔ 3- منافق اس حقیقت کو نہیں جانتے، اس لیے وہ سمجھتے ہیں کہ انصار اگر مہاجرین کی طرف دست تعاون دراز نہ کریں تو وہ بھوکے مر جائیں گے۔