سورة الجمعة - آیت 6

قُلْ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ هَادُوا إِن زَعَمْتُمْ أَنَّكُمْ أَوْلِيَاءُ لِلَّهِ مِن دُونِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

فرمائیں کہ اے یہودیوں اگر باقی لوگوں کے سوا تم اللہ کے چہیتے ہو تو پھر موت کی تمنا کرو اگر تم اپنے اس خیال میں سچے ہو

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- جیسے وہ کہا کرتے تھے کہ (ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں)۔ (المائدۃ: 18) اور دعویٰ کرتے تھے کہ (جنت میں صرف وہی جائے گا جو یہودی یا نصرانی ہوگا) (البقرۃ: 111) 2- تاکہ تمہیں وہ اعزاز واکرام حاصل ہو جو تمہارے زعم کے مطابق تمہارے لیے ہونا چاہیے۔ 3- اس لیے کہ جس کو یہ علم ہو کہ مرنے کے بعد اس کے لیے جنت ہے، وہ تو وہاں جلد پہنچنے کا خواہش مند ہوتا ہے۔ حافظ ابن کثیر نے اس کی تفسیر دعوت مباہلہ سے کی ہے۔ یعنی اس میں ان سے کہا گیا ہے کہ اگر تم نبوت محمدیہ کے انکار اور اپنے دعوائے ولایت ومحبوبیت میں سچے ہو تو مسلمانوں کے ساتھ مباہلہ کر لو۔ یعنی مسلمانوں اور یہودی دونوں مل کر بارگاہ الٰہی میں دعا کریں کہ یااللہ ہم دونوں میں سے جو جھوٹا ہے، اسے موت سے ہمکنار فرما دے۔ (دیکھئے سورۂ بقرۃ آیت 94 کا حاشیہ)۔