سورة الجمعة - آیت 5

مَثَلُ الَّذِينَ حُمِّلُوا التَّوْرَاةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوهَا كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ أَسْفَارًا ۚ بِئْسَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِ اللَّهِ ۚ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

جن لوگوں کو توراۃ کا حامل بنایا گیا۔ انہوں نے اس کو نہ اٹھایا۔ ان کی مثال اس گدھے جیسی ہے جس پر کتابیں لدی ہوئی ہوں اس سے بھی زیادہ بری مثال ان لوگوں کی ہے جنہوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلادیا اور ظالموں کو اللہ ہدایت نہیں دیا کرتا۔

تفسیر مکہ - حافظ صلاح الدین یوسف حافظ

* أَسْفَارٌ، سِفْرٌ کی جمع ہے۔ معنی ہیں بڑی کتاب۔ کتاب جب پڑھی جاتی ہے تو انسان اس کے معنوں میں سفر کرتا ہے۔ اس لیے کتاب کو بھی سفر کہا جاتا ہے (فتح القدیر) یہ بےعمل یہودیوں کی مثال بیان کی گئی ہے کہ جس طرح گدھے کو معلوم نہیں ہوتا کہ اس کی کمر پر جو کتابیں لدی ہوئی ہیں، ان میں کیا لکھا ہوا ہے؟ یا اس پر کتابیں لدی ہوئی ہیں یا کوڑا کرکٹ۔ اسی طرح یہ یہودی ہیں یہ تورات کو تو اٹھائے پھرتے ہیں ، اس کو پڑھنے اور یاد کرنے کے وعدے بھی کرتے ہیں، لیکن اسے سمجھتے ہیں نہ اس کے مقتضا پر عمل کرتے ہیں، بلکہ اس میں تاویل وتحریف اور تغیر وتبدل سے کام لیتے ہیں۔ اس لیے یہ حقیقت میں گدھے سے بھی بدتر ہیں، کیونکہ گدھا تو پیدائشی طور پر فہم وشعور سے ہی عاری ہوتا ہے، جب کہ ان کے اندر فہم وشعور ہے لیکن یہ اسے صحیح طریقے سے استعمال نہیں کرتے۔ اسی لیے آگے فرمایا کہ ان کی بڑی بری مثال ہے۔ اور دوسرے مقام پر فرمایا، ﴿أُولَئِكَ كَالأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ﴾ (الأعراف: 179) ”یہ چوپائے کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ“۔ یہی مثال مسلمانوں کی اور بالخصوص علما کی ہے جو قرآن پڑھتے ہیں، اسے یاد کرتے ہیں اور اس کے معانی ومطالب کو سمجھتے ہیں، لیکن اس کے مقتضا پر عمل نہیں کرتے۔