سورة الحشر - آیت 6

وَمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلَا رِكَابٍ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلَىٰ مَن يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اور جو مال اللہ نے ان کے قبضے سے نکال کر اپنے رسول کی طرف لوٹاوہ ایسا مال نہیں ہے جس پر تم نے اپنے گھوڑے اور اونٹ دوڑائے ہوں بلکہ اللہ اپنے رسولوں کو جس پر چاہتا ہے مسلط کردیتا ہے اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- بنو نضیر کا یہ علاقہ، جو مسلمانوں کے قبضے میں آیا، مدینے سے تین چار میل کے فاصلے پر تھا، یعنی مسلمانوں کو اس کے لیے لمبا سفر کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ یعنی اس میں مسلمانوں کو اونٹ اور گھوڑے دوڑانے نہیں پڑے۔ اسی طرح لڑنے کی بھی نوبت نہیں آئی اور صلح کے ذریعے سے یہ علاقہ فتح ہوگیا، یعنی اللہ نے اپنے رسول (ﷺ) کو بغیر لڑے ان پر غالب فرما دیا۔ اس لیے یہاں سے حاصل ہونے والے مال کو فَيْء قرار دیا گیا، جس کا حکم غنیمت سے مختلف ہے۔ گویا وہ مال فَيْءٌ ہے، جو دشمن بغیر لڑے چھوڑ کر بھاگ جائے یا صلح کے ذریعے سے حاصل ہو۔ اور جو مال باقاعدہ لڑائی اور غلبہ حاصل کرنے کے بعد ملے، وہ غنیمت ہے۔