سورة الحديد - آیت 20

اعْلَمُوا أَنَّمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهْوٌ وَزِينَةٌ وَتَفَاخُرٌ بَيْنَكُمْ وَتَكَاثُرٌ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ ۖ كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهُ ثُمَّ يَهِيجُ فَتَرَاهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَكُونُ حُطَامًا ۖ وَفِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ شَدِيدٌ وَمَغْفِرَةٌ مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانٌ ۚ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

جان لو کہ دنیا کی زندگی ایک کھیل، تماشا، زینت، فخر کا باعث اور تمہارا آپس میں مال اور اولاد میں ایک دوسرے پر کثرت جتلانے کی کوشش کرنا ہے، اس کی مثال بارش سے پیدا ہونے والی نباتات جیسی ہے جسے دیکھ کر کاشت کار خوش ہوتے ہیں پھر وہ کھیتی پک جاتی ہے اور تم دیکھتے ہو کہ وہ زرد ہو کر بھس بن جاتی ہے اس کے برعکس آخرت وہ جگہ ہے جہاں سخت عذاب، اللہ کی مغفرت اور اس کی خوشنودی بھی ہے، دنیا کی زندگی دھوکے کے سوا کچھ نہیں

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- كُفَّارٌ، کسانوں کو کہا گیا ہے، اس لیے کہ اس کے لغوی معنی ہیں چھپانے والے۔ کافروں کے دلوں میں اللہ کا اور آخرت کا انکار چھپا ہوتا ہے، اس لیے انہیں کافر کہا جاتا ہے۔ اور کاشت کاروں کے لیے یہ لفظ بولا گیا ہے کہ وہ بھی زمین میں بیج بوتے یعنی انہیں چھپا دیتے ہیں۔ 2- یہاں دنیا کی زندگی کو سرعت زوال میں کھیتی سے تشبیہ دی گئی ہے کہ جس طرح کھیتی جب شاداب ہوتی ہے تو بڑی بھلی لگتی ہے، کاشتکار اسے دیکھ کر بڑے خوش ہوتے ہیں۔ لیکن وہ بہت ہی جلد خشک اور زرد رو ہوکر چورا چورا ہو جاتی ہے۔ اسی طرح دنیا کی زیب وزینت ، مال اور اولاد دیگر چیزیں انسان کا دل لبھاتی ہیں۔ لیکن یہ زندگی چند روزہ ہی ہے۔ اس کو بھی ثبات وقرار نہیں۔ 3- یعنی اہل کفر وعصیان کے لیے، جو دنیا کےکھیل کود میں ہی مصروف رہے اور اسی کو انہوں نے حاصل زندگی سمجھا۔ 4- یعنی اہل ایمان وطاعت کے لیے، جنہوں نے دنیاکو ہی سب کچھ نہیں سمجھا، بلکہ اسے عارضی، فانی اور دارالامتحان سمجھتے ہوئے اللہ کی ہدایات کے مطابق اس میں زندگی گزاری۔ 5- لیکن اس کے لیے جواس کےدھوکے میں مبتلا رہا اور آخرت کے لیے کچھ نہیں کیا۔ لیکن جس نے اس حیات دنیا کو طلب آخرت کے لیے استعمال کیا تو اس لیے یہی دنیا، اس سے بہتر زندگی حاصل کرنے کا ذریعہ ثابت ہو گی۔