إِنَّ اللَّهَ يُدْخِلُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ۖ وَالَّذِينَ كَفَرُوا يَتَمَتَّعُونَ وَيَأْكُلُونَ كَمَا تَأْكُلُ الْأَنْعَامُ وَالنَّارُ مَثْوًى لَّهُمْ
یقیناً ایمان والوں اور نیک عمل کرنے والوں کو ” اللہ“ ایسی جنت میں داخل کرے گا جن کے نیچے سے نہریں جاری ہیں، اور کافر دنیا کے فائدے اٹھاتے ہیں، جانوروں کی طرح کھاپی رہے ہیں۔ ان کا ٹھکانا جہنم ہے۔
* یعنی جس طرح جانوروں کو پیٹ اور جنس کے تقاضے پورے کرنےکے علاوہ کوئی کام نہیں ہوتا۔ یہی حال کافروں کا ہے، ان کا مقصد زندگی بھی کھانے پینے کےعلاوہ کچھ نہیں، آخرت سے وہ بالکل غافل ہیں۔ اس سے ضمناً کھڑےکھڑے کھانے کی ممانعت کا بھی اثبات ہوتا ہے، جس کا آج کل دعوتوں میں عام رواج ہے کیوں کہ اس میں بھی جانوروں سے مشابہت ہے جسے کافروں کا شیوہ بتلایا گیا ہے۔ احادیث میں کھڑے کھڑے پانی پینے سے نہایت سختی سے منع کیا گیا ہے، جس سے کھڑے کھڑے کھانے کی ممانعت بطریق اولیٰ ثابت ہوتی ہے۔ اس لئے جانوروں کی طرح کھڑے ہو کر کھانے سے اجتناب کرنا نہایت ضروری ہے۔ دیکھئے زاد المعاد۔