سورة الأحقاف - آیت 11

وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلَّذِينَ آمَنُوا لَوْ كَانَ خَيْرًا مَّا سَبَقُونَا إِلَيْهِ ۚ وَإِذْ لَمْ يَهْتَدُوا بِهِ فَسَيَقُولُونَ هَٰذَا إِفْكٌ قَدِيمٌ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

ایمان داروں کے بارے میں کافر کہتے ہیں کہ اگر اس کتاب کو مان لینااچھا کام ہوتا تو آپ لوگ ہم سے اس میں سبقت نہ لے جاتے، انہوں نے اس سے ہدایت نہ پائی اس لیے وہ کہتے ہیں کہ یہ تو پرانا جھوٹ ہے

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- کفار مکہ، حضرت بلال، عمار، صہیب اور خباب (رضی الله عنہم) جیسے مسلمانوں کو، جو غریب وقلاش قسم کے لوگ تھے، لیکن اسلام قبول کرنے سے انہیں سابقیت کا شرف حاصل ہوا، دیکھ کر کہتے کہ اگر اس دین میں بہتری ہوتی تو ہم جیسے ذی عزت وذی مرتبہ لوگ سب سے پہلے اسے قبول کرتے نہ کہ یہ لوگ پہلے ایمان لاتے۔ یعنی اپنے طور پر انہوں نے اپنی بابت یہ فرض کر لیا کہ اللہ کے ہاں ان کا بڑا مقام ہے، اس لئے اگر یہ دین بھی اللہ کی طرف سے ہوتا تو اللہ تعالیٰ ہمیں اس کے قبول کرنے میں پیچھے نہ چھوڑتا، اور جب ہم نے اسے نہیں اپنایا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایک پرانا جھوٹ ہے۔ یعنی قرآن کو انہوں نے پرانا جھوٹ قرار دیا ہے۔ جیسے وہ اسے ﴿أَسَاِطِيرُ الأوَّلِينَ بھی کہتے تھے، حالانکہ دنیوی مال ودولت میں ممتاز ہونا، عند اللہ مقبولیت کی دلیل نہیں۔ ”جیسے ان کو مغالطہ ہوا یا شیطان نے مغالطے میں ڈالا“ عند اللہ مقبولیت کے لئے تو ایمان واخلاص کی ضرورت ہے۔ اور اس دولت ایمان واخلاص سے وہ جس کو چاہتا ہے، نوازتا ہے، جیسے وہ مال ودولت آزمائش کے طور پر جس کو چاہتا ہے، دیتا ہے۔