سورة الزخرف - آیت 18

أَوَمَن يُنَشَّأُ فِي الْحِلْيَةِ وَهُوَ فِي الْخِصَامِ غَيْرُ مُبِينٍ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

کیا اللہ کے حصے میں وہ اولادآئی ہے جو زیوروں میں پرورش پاتی ہے اور بحث وتکرار میں اپنا مدعا پوری طرح واضح نہیں کر سکتی

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- يُنَشَّؤُا نُشُوءٌ سے ہے، بمعنی تربیت اور نشوونما۔ عورتوں کی دو صفات کا تذکرہ بطور خاص یہاں کیا گیا ہے۔ 1۔ ان کی تربیت اور نشوونما زیورات اور زینت میں ہوتی ہے، یعنی شعور کی آنکھیں کھولتے ہی ان کی توجہ حسن افزا اور جمال افروز چیزوں کی طرف ہوجاتی ہے۔ مقصد اس وضاحت سے یہ ہے کہ جن کی حالت یہ ہے، وہ تو اپنے ذاتی معاملات کے درست کرنے کی بھی استعداد وصلاحیت نہیں رکھتیں۔ 2۔ اگر کسی سے بحث وتکرار ہو تو وہ اپنی بات بھی صحیح طریقے سے (فطری حجاب کی وجہ سے) واضح نہیں کرسکتیں نہ فریق مخالف کے دلائل کا توڑ ہی کرسکتی ہیں۔ یہ عورت کی وہ دو فطری کمزوریا ں ہیں جن کی بنا پر مرد حضرات عورتوں پر ایک گونہ فضیلت رکھتے ہیں۔ سیاق سے بھی مرد کی یہ برتری واضح ہے، کیوں کہ گفتگو اسی ضمن میں یعنی مرد و عورت کے درمیان جو فطری تفاوت ہے، جس کی بنا پر بچی کے مقابلے میں بچے کی ولادت کو زیادہ پسند کیا جاتا تھا، ہو رہی ہے۔