فَإِنْ أَعْرَضُوا فَمَا أَرْسَلْنَاكَ عَلَيْهِمْ حَفِيظًا ۖ إِنْ عَلَيْكَ إِلَّا الْبَلَاغُ ۗ وَإِنَّا إِذَا أَذَقْنَا الْإِنسَانَ مِنَّا رَحْمَةً فَرِحَ بِهَا ۖ وَإِن تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ فَإِنَّ الْإِنسَانَ كَفُورٌ
اب بھی یہ لوگ منہ موڑتے ہیں تو اے نبی ہم نے تم کو ان پر نگران بنا کر نہیں بھیجا ہے آپ پر تو حق بات پہنچانے کی ذمہ داری ہے۔ انسان کو جب ہم اپنی رحمت کا مزا چکھاتے ہیں تو اس پر پھول جاتا ہے۔ اگر اس کے اپنے ہاتھوں کا کیا دھرا کسی مصیبت کی شکل میں اس پر الٹ پڑتا ہے تو وہ بہت ناشکرا بن جاتا ہے
1- جیسے دوسرے مقام پر فرمایا ﴿لَيْسَ عَلَيْكَ هُدَاهُمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ﴾ (البقرة: 272) اور ﴿فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلاغُ وَعَلَيْنَا الْحِسَابُ﴾ (الرعد: 40) ﴿فَذَكِّرْ إِنَّمَا أَنْتَ مُذَكِّرٌ ، لَسْتَ عَلَيْهِمْ بِمُسَيْطِرٍ﴾ (الغاشيہ :21 -22) ان سب کا مطلب یہ ہے کہ آپ (ﷺ) کی ذمہ داری صرف اور صرف یہ ہے کہ اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچادیں، مانیں نہ مانیں، آپ سے اس کی باز پرس نہیں ہوگی، کیونکہ ہدایت دینا آپ کے اختیار میں ہی نہیں ہے، یہ صرف اللہ کے اختیار میں ہے۔ 2- یعنی وسائل رزق کی فراوانی، صحت وعافیت، اولاد کی کثرت، جاہ ومنصب وغیرہ۔ 3- یعنی تکبر اور غرور کا اظہار کرتا ہے، ورنہ اللہ کی نعمتوں پر خوش ہونا یا اس کا اظہار ہونا، ناپسندیدہ امر نہیں، لیکن وہ تحدیث نعمت اور شکر کے طور پر ہو نہ کہ فخر وریا اور تکبر کے طور پر۔ 4- مال کی کمی، بیماری، اولاد سے محرومی وغیرہ۔ 5- یعنی فوراً نعمتوں کوبھی بھول جاتا ہے اور مُنْعِمٌ (نعمتیں دینے والے) کو بھی۔ یہ انسانوں کی غالب اکثریت کے اعتبار سے ہے جس میں ضعیف الایمان لوگ بھی شامل ہیں۔ لیکن اللہ کے نیک بندے اور کامل الایمان لوگوں کا حال ایسا نہیں ہوتا۔ وہ تکلیفوں پر صبر کرتے ہیں اور نعمتوں پر شکر۔ جیسا کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا [ إِنْ أَصَابَتْهُ سَرَّاءُ شَكَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَهُ وَإِنْ أَصَابَتْهُ ضَرَّاءُ صَبَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَهُ ، وَلَيْس ذَلِك لأَحَدٍ إٍلا لِلْمُؤْمِنِ ] (صحيح مسلم، كتاب الزهد ، باب أمر المؤمن أمره خير له)۔