وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّن قَبْلِكَ مِنْهُم مَّن قَصَصْنَا عَلَيْكَ وَمِنْهُم مَّن لَّمْ نَقْصُصْ عَلَيْكَ ۗ وَمَا كَانَ لِرَسُولٍ أَن يَأْتِيَ بِآيَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ ۚ فَإِذَا جَاءَ أَمْرُ اللَّهِ قُضِيَ بِالْحَقِّ وَخَسِرَ هُنَالِكَ الْمُبْطِلُونَ
اے نبی تجھ سے پہلے ہم بہت سے رسول بھیج چکے ہیں۔ جن میں سے بعض کے حالات ہم نے آپ کو بتائے ہیں اور بعض کے نہیں بتائے۔ کسی رسول کے پاس یہ طاقت نہ تھی کہ اللہ کی اجازت کے بغیر کوئی نشانی لے آئے۔ جب اللہ کا حکم آیا تو حق کے مطابق فیصلہ کردیا گیا اور اس وقت باطل پرست خسارے میں پڑ گئے
1- اور یہ تعداد میں، بہ نسبت ان کے جن کے واقعات بیان کیے گئے ہیں۔ بہت زیادہ ہیں۔ اس لیے کہ قرآن کریم میں تو صرف 25 ، انبیا ورسل کا ذکر اور ان کی قوموں کے حالات بیان کیے گئے ہیں۔ 2- آیت سے مراد یہاں معجزہ اور خرق عادت واقعہ ہے، جو پیغمبر کی صداقت پر دلالت کرے۔ کفار، پیغمبروں سے مطالبے کرتے رہے کہ ہمیں فلاں فلاں چیز دکھاؤ ، جیسے خود نبی کریم (ﷺ) سےکفار مکہ نے کئی چیزوں کا مطالبہ کیا، جس کی تفصیل سورۂ بنی اسرائیل 90- 93 میں موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ کسی پیغمبر کے اختیار میں یہ نہیں تھا۔ کہ وہ اپنی قوموں کے مطالبے پر ان کوکوئی معجزہ صادر کر کے دکھلا دے۔ یہ صرف ہمارے اختیار میں تھا، بعض نبیوں کو تو ابتدا ہی سے معجزے دے دیے گئے تھے۔ بعض قوموں کو ان کے مطالبے پرمعجزہ دکھلایا گیا اور بعض کو مطالبے کے باوجود نہیں دکھلایا گیا۔ ہماری مشیت کے مطابق اس کا فیصلہ ہوتا تھا۔ کسی نبی کے ہاتھ میں یہ اختیار نہیں تھا کہ وہ جب چاہتا، معجزہ صادر کر کے دکھلا دیتا۔ اس سے ان لوگوں کی واضح تردید ہوتی ہے، جو بعض اولیا کی طرف یہ باتیں منسوب کرتے ہیں کہ وہ جب چاہتے ہیں اور جس طرح چاہتے، خرق عادت امور (کرامات) کا اظہار کر دیتے تھے۔ جیسے شیخ عبدالقادر جیلانی کے لیے بیان کیا جاتا ہے۔ یہ سب من گھڑت قصے کہانیاں ہیں، جب اللہ نے پیغمبروں کو یہ اختیار نہیں دیا، جن کو اپنی صداقت کے ثبوت کےلیے، اس کی ضرورت بھی تھی تو کسی ولی کو یہ اختیار کیونکرمل سکتا ہے؟ بالخصوص جب کہ ولی کو اس کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ کیونکہ نبی کی نبوت پر ایمان لانا ضروری ہوتا ہے، اس لیے معجزہ ان کی ضرورت تھی۔ لیکن اللہ کی حکمت و مشیت اس کی مقتضی نہ تھی، اس لیے یہ قوت کسی نبی کو نہیں دی گئی۔ ولی کی ولایت پر ایمان رکھنا ضروری نہیں ہے، اس لیے انہیں معجزے اور کرامات کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ انہیں اللہ تعالیٰ یہ اختیار بلا ضرورت کیوں عطا کر سکتا ہے؟ 3- یعنی دنیا یا آخرت میں جب ان کے عذاب کا وقت معین آ جائے گا۔ 4- یعنی ان کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کر دیا جائے گا۔ اہل حق کو نجات اور اہل باطل کو عذاب۔